بھارت نے اپنے2024-25 ء کے سالانہ بجٹ میں دفاع کے لیے 6لاکھ 22ہزار کروڑ روپے مختص کیے ہیں، جو48 لاکھ کروڑ روپے کے مجموعی قومی بجٹ کا13فی صد ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں دفاعی بجٹ میں پانچ فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔اِس ضمن میں دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر سال دفاع کی مد میں اضافہ اِس امر کی غمّازی کرتا ہے کہ بھارت اپنی فوجی قوّت بتدریج بڑھا رہا ہے اور یہ اس کی طویل مدّتی دفاعی حکمتِ عملی کا حصّہ ہے۔ یہ اُس ویژن میں بھی شامل ہے کہ اُس کے لیڈر بھارت کو اگلے پچاس سال میں کہاں دیکھنا چاہتے ہیں۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دفاعی نقطۂ نظر سے موجودہ بجٹ کی زیادہ توجّہ چین اور پاکستان کی جانب مرکوز ہے، کیوں کہ بھارت کی براہِ راست سرحدیں اِن دونوں ممالک سے ملتی ہیں، جب کہ مختلف تنازعات کے سبب ان سے تعلقات میں کشیدگی بھی پائی جاتی ہے۔ یہ کشیدگی کبھی کبھی فوجی تصادم میں بھی تبدیل ہوجاتی ہے اور اس سے پیدا ہونے والی تلخی کے خاتمے کے لیے خاصا وقت اور سفارتی کوششیں درکار ہوتی ہیں۔
دفاعی بجٹ میں یہ اضافہ اِس لیے بھی غور طلب ہے کہ کشیدگی کے باوجود علاقے میں فوری جنگ کا کوئی خطرہ نظر نہیں آتا۔بھارت کا پاکستان سے کشمیر پر تنازع موجود ہے اور چین سے ہمالائی سرحد پر کشیدگی، لیکن اِن دونوں تنازعات کی شدّت تین، چار سال سے ایک حد سے زیادہ نہیں بڑھی۔
پھر یہ تینوں ممالک ایٹمی طاقت بھی ہیں اور یہ بات ازخود جنگ کی طرف جانے سے روکتی ہے، ہاں بڑے یا چھوٹے روایتی تصادم ضرور ممکن ہیں۔ اگر عالمی اور علاقائی تناظر میں دیکھا جائے، تو تقریباً تمام ہی ممالک کی توجّہ اپنے معاشی حالات بہتر بنانے پر مرکوز ہے۔ چین اس کی ایک بڑی مثال ہے، جب کہ پاکستان کو بہت سے اقتصادی چیلنجز کا سامنا ہے اور وہ اِس وقت قطعاً اِس پوزیشن میں نہیں کہ کسی فوجی گرما گرمی میں اپنا وقت ضائع کرے۔
اس کے علاوہ مُلک کی حُکم ران جماعت ہی نہیں، باقی سیاسی جماعتوں کی بھی یہی سوچ ہے کہ پڑوسیوں سے تعلقات بہتر اور بنیادی تنازعات حل کیے جائیں۔اِس پس منظر میں بھارت کا ہر سال اپنے دفاعی بجٹ میں خطیر رقم کا اضافہ بہت سی باتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
بھارت اُن ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے، جو دفاع پر سب سے زیادہ رقم خرچ کرتے ہیں۔ دفاعی امور پر تحقیق کرنے والے اکثر عالمی ادارے اِس امر پر متفّق ہیں اور اُن کی تازہ ترین رپورٹس میں بھی یہ واضح ہے کہ گزشتہ پانچ سال کے اعداد وشمار کے مطابق بھارت، دنیا میں سب سے زیادہ فوجی سازو سامان خریدنے والا مُلک بن چکا ہے، جب کہ اُس کے پاس 13لاکھ باقاعدہ فوج ہے اور اس کا موجودہ بجٹ پاکستان کے بجٹ سے دس گُنا زاید ہے۔
بھارت نے گزشتہ سالوں میں تیز رفتار ترقّی کی ہے، کئی اقتصادی شعبوں اور ٹیکنالوجی میں نمایاں پیش رفت دِکھائی، جس سے اُس کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، لیکن خود بھارتی معاشی ماہرین کا ماننا ہے کہ اب بھی وہاں غربت چھائی ہوئی ہے اور اِس ضمن میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔اس کا اندازہ اِس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حالیہ انتخابات میں بھی تمام جماعتوں کا منشور معیشت کی بہتری اور غربت میں کمی ہی سے متعلق تھا۔
مودی کی پارٹی کو جو غیر معمولی دھچکا لگا اور توقّع سے بہت کم نشستیں ملیں، اس کی بھی ایک بڑی وجہ یہی تھی کہ لوگ چاہتے ہیں کہ حُکم ران فرقہ وارانہ اور نظریاتی جھگڑوں میں اُلجھنے کی بجائے اُن کے حالات بہتر بنانے پر کام کریں۔ مودی نے مذہبی کارڈ اور ہندو توا پر ووٹ لینے کی کوشش کی، مگر عوام نے یہ کوشش مسترد کردی، جس کے نتیجے میں ایک طویل عرصے بعد مضبوط اپوزیشن آئی تاکہ زیادہ مؤثر انداز میں حکومت کی معاشی کارکردگی کا احتساب کیا جاسکے۔
اب ایسے میں اگر معاشی معاملات، غربت مِٹانے یا سوشل ویلفیئر کے لیے رقم رکھنے کی بجائے ہتھیاروں کی خریداری کو اوّلیت دی جائے، تو لوگوں کے لیے یہ خاصا ناپسندیدہ عمل ہوگا۔ ماہرین جانتے ہیں کہ یہ مُلک کے لیے سود مند نہیں، اِسی لیے بجٹ آنے کے بعد بھارت میں اس پر خاصی بحث ہو رہی ہے۔بجٹ میں جو رقم دفاعی معاملات کے لیے رکھی گئی ہے، وہ کسی ایک مَد میں رکھی جانے والی رقوم میں سب سے زیادہ ہے۔
بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ75 ارب ڈالرز کا یہ بجٹ، فوج کے جدید ہتھیاروں، نئی ٹیکنالوجی اور جدّت کے لیے رکھا گیا ہے۔ وزیرِ دفاع، راج ناتھ سنگھ نے چھے ہزار، بائیس لاکھ کروڑ کے بجٹ کے استعمال کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا کہ’’ اس میں سے ایک لاکھ 72ہزار کروڑ روپے فوجی صلاحیتوں کو جدید بنانے پر خرچ کیے جائیں گے۔‘‘ گزشتہ برسوں میں فوجی حلقے اور دفاعی ماہرین اِس امر پر بحث کرتے رہے ہیں کہ بھارت، فوجی جوانوں کی تعداد کے لحاظ سے تو دنیا کی بڑی فوجی قوّت رکھنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے، لیکن اس کی دفاعی کوالٹی اور جدیدیت وہ نہیں، جو ترقّی یافتہ ممالک میں پائی جاتی ہے۔
خاص طور پر سوویت یونین دَور کے پرانے ہتھیاروں پر بہت تنقید ہوتی ہے، جو آج بھی بھارتی دفاعی مشینری کا بڑا حصّہ ہیں اور جو جنگ میں کام آنے سے زیادہ اب نمائشی بن کر رہ گئے ہیں۔ ماہرین پوچھتے ہیں کہ ان سے کیا حاصل ہوگا، جب کہ دفاعی ٹیکنالوجی کہاں سے کہاں پہنچ چُکی ہے۔ اگر یوکرین جنگ میں روس کے ہتھیاروں کے استعمال کو دیکھا جائے، تو وہ اِس دَور کے ہتھیار نظر نہیں آتے۔ چین سے ہمالائی سرحد پر جب بھی بھارتی افواج کا ٹکرائو ہوا، تو یہ معاملہ کُھل کر سامنے آیا اور اکثر مواقع پر اُسے پسپائی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
شاید بھارتی وزیرِ دفاع اِسی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ اب پرانے اسلحے کو خیرباد کہنے کا وقت آگیا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق بھارت کی توجّہ فوج کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے پر ہے اور دو سال کے دَوران اِس مد میں رکھی جانے والی رقم میں20 فی صد سے زاید کا اضافہ کیا گیا ہے۔ دفاعی بجٹ کے اضافے سے متعلق حکومتی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسا لانگ ٹرم دفاعی قوّت بڑھانے کے منصوبے کے تحت کیا گیا ہے۔
ہر سال زیادہ رقم رکھنے کا مقصد آئندہ مالی سالوں میں بڑی خریداریوں کو ممکن بنانا ہے۔اِس طرح مسلّح افواج کو جدید ترین فوجی ٹیکنالوجی، مہلک ہتھیاروں، بحری جہازوں، آب دوزوں، ٹینکس، لڑاکا طیاروں اور ڈرونز وغیرہ سے لیس کیا جاسکے گا۔
بھارت نے فرانس سے جدید ترین رافیل لڑاکا طیارے خریدے، باوجود یہ کہ امریکا کی طرف سے اس پر شدید تحفّظات کا اظہار کیا گیا۔دوسری طرف، وہ امریکا سے سِول نیوکلیئر ٹیکنالوجی حاصل کر رہا ہے، جس سے اس کا نیوکلیئر پلیٹ فارم ہمہ جہت اور وسیع ہو رہا ہے۔ نیز، اس سے اُسے اپنی توانائی کی ضرورتیں پوری کرنے میں بہت مدد مل رہی ہے۔ بھارت نے شروع ہی سے روس کے ساتھ بڑے گہرے فوجی تعلقات رکھے ہیں۔ اس کا آئرن ڈوم سسٹم، روس کے سام میزائلوں سے لیس ہے۔
اِسی طرح اس کے اسرائیل کے ساتھ بھی قریبی فوجی روابط ہیں اور وہ اس سے ہتھیار اور جدید ٹیکنالوجی حاصل کرتا ہے۔ اُسے اپنی معاشی مضبوطی سے یہ فائدہ ہوا کہ وہ ہتھیار نقد خریدتا ہے۔اب بڑے ممالک کی ہتھیاروں کی انڈسٹری اُن کی معیشت میں مرکزی اہمیت کی حامل ہے، اِس لیے وہ ایسے ممالک کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، جن سے اُنہیں پیسا ملے اور جیسا کہ ہم نے بتایا، بھارت ہتھیاروں کی خریداری میں اوّل نمبر پر ہے۔ ظاہر ہے، ہر مُلک اس بڑی مارکیٹ سے فائدہ اُٹھانا چاہے گا۔یہ کاروبار بھی ہے اور فوجی تعاون بھی۔
چین کے تناظر میں دیکھا جائے، تو بھارت کا ایک بڑا مسئلہ اُس کا زمینی انفرا اسٹرکچر اور لاجسٹک نظام بھی ہے۔چین سے اُس کی سرحدیں بلند پہاڑوں پر مشتمل ہے،جہاں تک فوجی اور دیگر سامان پہنچانے کے لیے بہترین راستوں یا سڑکوں کی ضرورت ہوتی ہے، جو اُس کے پاس نہیں ہے۔اِسی لیے بھارتی وزیرِ دفاع نے زور دے کر کہا کہ’’ خوشی ہے کہ اِس بجٹ میں انفرا اسٹرکچرل ڈیویلپمنٹ کے لیے ایک بڑی رقم رکھی گئی ہے۔‘‘چین کی طرف یہ مواصلاتی نظام بہت جدید اور اچھا ہے، اِسی لیے جب بھی کوئی فوجی جھڑپ ہوتی ہے، وہ فوری طور پر اپنی فوج اور ہتھیار وہاں پہنچا دیتا ہے، جس کے سبب بھارتی فوج کو پسپائی یا دیر سے ردّ ِعمل کا موقع ملتا ہے۔ماہرین کے مطابق چین کا دفاعی بجٹ230ارب ڈالرز ہے، جو ظاہر ہے، بھارت کے مقابلے میں چار گُنا ہے۔
علاوہ ازیں، اس کی دفاعی صنعت جدید اور ترقّی یافتہ ہے۔پھر یہ کہ چین ایک بڑی طاقت ہے، سلامتی کاؤنسل کا مستقل رُکن ہے، اس کا کردار عالمی، معاشی اور دفاعی سسٹم میں فیصلہ کُن ہے، جب کہ بھارت ابھی بڑی طاقت بننے کی دوڑ میں خاصا پیچھے ہے۔ امریکا، بھارت کو مشرقی ایشیا اور بحرِ ہند میں چین کے مقابل لانا چاہتا ہے۔
بھارت اِس معاملے میں اُس کا بظاہر ہم نوا بھی ہے، اِسی لیے جتنے اہم اور بنیادی عالمی فوجی و اقتصای معاہدے اِس علاقے میں ہو رہے ہیں، اُن میں بھارت، امریکا کے ساتھ ہے۔ان معاہدوں کا فائدہ یہ ہے کہ اُسے مغرب کی جدید عسکری ٹیکنالوجی اور ہتھیار بلا روک ٹوک مل جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، امریکا اس کے لیے بہت سے معاملات میں صرفِ نظر کی پالیسی بھی اختیار کرتا ہے۔یوکرین کی جنگ میں بھارت نے کبھی کُھل کر امریکا کا ساتھ نہیں دیا کہ وہ روس سے اپنے دیرینہ تعلقات میں دراڑ نہیں آنے دیتا اور امریکا اسے برداشت بھی کر لیتا ہے۔ جب امریکا نے روسی تیل پر پابندی عاید کی، تو وہ اُسے مارکیٹ کے مقابلے میں35فی صد کم پر فروخت کرنے پر مجبور ہوا۔
بھارت کے پاس روس کی تیار کردہ ریفائنریز موجود ہیں، جن میں روسی گریڈ کا تیل صاف کیا جاسکتا ہے، تو اس نے کُھل کر یہ تیل خریدا، جب کہ دوسرے ممالک پابندیوں کی زَد میں رہے۔ امریکا، پاکستان کو ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن نہیں بنانے دیتا، جب کہ اس کا آخری سِرا بھارت میں ختم ہوتا ہے۔ امریکا نے روس سے تیل خریدنے پر بیانات تو بہت دیئے، لیکن جب پابندیوں پر عمل کا وقت آیا، تو اس سے بھارت کو استثنا مل گیا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں بھارت، امریکا اور مغرب کے لیے دفاعی طور پر کس قدر اہمیت اختیار کر چُکا ہے۔
بھارت اور چین کے درمیان رواں سال دو طرفہ تجارت کا حجم118.5بلین ڈالرز ہوگیا، اِس طرح چین اس کا سب بڑا تجارتی پارٹنر بن چُکا ہے، جب کہ اِس سے قبل یہ درجہ امریکا کو حاصل تھا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس دو طرفہ تجارت میں بھارت سراسر خسارے میں ہے کہ اُس کی چین کو برآمدات بمشکل تیس فی صد ہیں، جب کہ چین سے درآمدات70 فی صد ہیں، لیکن اِس طرح وہ چین کو بھی یہ تاثر دینے میں کام یاب ہے کہ وہ اس کا بڑا معاشی پارٹنر ہے۔ کون سا مُلک ہوگا، جو اپنی تجارت میں نقصان برداشت کرے گا۔ چین کی پالیسی کی بنیاد اُس کا اقتصادی پھیلاؤ ہے اور اس میں وہ کوئی رکاوٹ نہیں آنے دیتا۔
بھارت، چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شامل نہیں، جب کہ گزشتہ سال دہلی میں ہونے والے اس کے مقابل امریکی تجارتی کوریڈور کا وہ سرگرم کھلاڑی ہے بلکہ دہلی ہی میں اس منصوبے کا اعلان ہوا۔ یہ ٹریڈ کوریڈور’’ ممبئی، مِڈل ایسٹ، یورپ کوریڈور‘‘ کہلاتا ہے، جس کا اختتام جنوبی امریکا میں اٹلانٹک کے ذریعے ہوگا۔ بھارت کُھلے عام کہتا ہے کہ سلامتی کاؤنسل کی مستقل رکنیت میں اضافہ کیا جائے اور امریکا سفارتی سطح پر اس کی حمایت کرتا ہے۔اگر بھارت کے فوجی بجٹ اور فوجی صنعت پر نظر ڈالی جائے، تو ماہرین کی رائے ہے کہ وہ اپنی بڑی طاقت کے امیج کو آگے بڑھانے اور مضبوط بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
اِسی لیے وہ جب بھی ہتھیاروں کا کوئی سسٹم یا فوجی ٹیکنالوجی خریدتا ہے، تو اِس بات کا خاص طور پر خیال رکھتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی مُلک میں ٹرانسفر ہو۔ بجٹ میں ریسرچ اور ہتھیاروں کی مُلک میں تیاری کے لیے ہمیشہ اچھی خاصی رقم رکھی جاتی ہے۔ بحرِ ہند میں فوجی برتری پر اُس کی خاص نظر ہے۔یہاں اُس کے ایسے ڈاکیارڈ ہیں، جہاں طیارہ بردار جہاز اور آب دوزیں تیار ہوتے ہیں۔ اِس سلسلے کا پہلا جہاز تیار ہوچکا ہے، جس میں روس نے اُس کی بھرپور معاونت کی ہے۔ نیز، اُس نے ایران سے ایک حالیہ معاہدے کے تحت چا بہار پورٹ 25 سالہ لیز پر حاصل کرلی ہے۔
یاد رہے، چابہار پورٹ ہماری گوادر پورٹ کے بالکل مقابل ہے، جسے چین نے تعمیر کیا ہے اور دونوں کا مقصد بھی ایک ہی ہے، یعنی وسط ایشیائی ممالک تک رسائی۔ اگر چین نے پاکستان میں سی پیک کے تحت شاہ راہوں کا جال بچھایا ہے، تو بھارت نے بھی چابہار سے ایک سہ طرفہ معاہدے (بھارت، ایران، افغانستان )کے تحت افغانستان تک سات سو میل لمبی شاہ راہ تعمیر کی ہے۔اِس طرح ایک طرف تو ہر سال بھارتی بجٹ میں اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف مختلف معاہدوں کے تحت وہ اپنی دفاعی قوّت میں اضافہ کر رہا ہے۔یوں اس کے فوجی فُٹ پرنٹس بڑھ رہے ہیں۔
امریکا اور مغربی طاقتیں تو چاہتی ہیں کہ بھارت چین کو گھیرنے یا محدود کرنے میں اُن کی مدد کرے، لیکن بھارت کیا چاہتا ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ یہ ہمارے لیے دوطرفہ، علاقائی اور عالمی طور پر اہم ہے۔بھارت اگر امریکا یا روس کا ساتھ دیتا ہے، چین سے خسارے کی تجارت کے باوجود اسے جاری رکھے ہوئے ہے، تو اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ تیزی سے اپنی معاشی قوّت کو بڑھائے اور پھر اُس کے بل بُوتے پر مضبوط دفاعی صلاحیت حاصل کرے اور یوں بڑی طاقتوں کی صف میں شامل ہوجائے۔