• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ یہ میری پارٹی اور مُلک کے بہترین مفاد میں ہے کہ مَیں دست بردار ہو جائوں‘‘ اور اِن الفاظ کے ساتھ ہی صدر جوبائیڈن 2024 ء کے امریکی صدراتی انتخابات کی دوڑ سے باہر ہوگئے۔ اُنہوں نے اپنی نائب صدر، کمیلا ہیرس کو ڈیمو کریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی اُمیدوار بنائے جانے کی حمایت کا بھی اعلان کیا اور انہیں ایک’’غیر معمولی عورت‘‘ قرار دیا۔بائیڈن کی یہ دست برداری امریکی سیاست اور ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے کسی بھونچال سے کم نہیں، خاص طور پر اگر اِس پس منظر میں دیکھا جائے کہ اِس اعلان سے ایک روز پہلے تک بائیڈن بظاہر بڑے اعتماد سے دعویٰ کر رہے تھے کہ’’صرف خدا ہی اُنہیں صدارتی الیکشن سے دست برداری پر مجبور کرسکتا ہے۔‘‘ 

جوبائیڈن نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنی باقی چھے ماہ کی صدارتی مدّت پوری کریں گے، تاہم دوبارہ صدارت کے اُمیدوار نہیں ہوں گے۔ اِس سے قبل امریکی تاریخ میں صرف ایک مرتبہ ایسا ہوا، جب کسی صدر نے اُمیدوار بننے سے انکار کیا اور وہ تھے، لِنڈن بی جانسن، جنہوں نے 1968 ء میں صدارتی الیکشن میں حصّہ نہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ بائیڈن کے اِس اعلان کے دو اثرات فوری سامنے آئے۔ اِس اعلان سے مُلک کے ٹاپ آفس کے لیے بے یقینی پیدا ہوئی۔ امریکا ایک سُپر پاور ہے اور اُس کا ہر دن دنیا میں ہونے والے واقعات میں اہم ہے۔ 

اگر بائیڈن واقعی ذہنی طور پر فِٹ نہیں ہیں، تو چھے ماہ تک وائٹ ہاؤس کی پالیسیز درحقیقت کون چلائے گا، یہ سوال بار بار سامنے آئے گا اور ری پبلکن اُمیدوار، ڈونلڈ ٹرمپ اِس حوالے سے بیان بھی دے چُکے ہیں۔بائیڈن کے اعلان کا دوسرا اثر سیاسی طور پر سامنے آیا اور وہ یہ کہ ڈیموکریٹک پارٹی ایک عجیب دوراہے پر آ کھڑی ہوئی ہے۔ اُس کے لیے ٹرمپ کی مقبولیت سال بَھر سے بہت بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے اور اب یہ چیلنج، طوفان کی شکل اختیار کرچُکا ہے۔اُس کے لیے اِس وقت سب سے بڑا مسئلہ اگست میں ہونے والے پارٹی کنونشن میں حتمی اُمیدوار کا اعلان اور پھر صرف دو ماہ میں ٹرمپ کی مقبولیت کا مقابلہ کرنا ہے۔

سوال یہ ہے کہ صدر جوبائیڈن دست برداری کے فیصلے پر کیوں مجبور ہوئے، باوجود یہ کہ اُن کے اپنے الفاظ میں’’مَیں تو الیکشن لڑنا چاہتا تھا، مگر پارٹی اور مُلکی مفاد میں دست بردار ہوا۔‘‘تو کیا واقعی ایسا ہی ہے؟حقائق اِس بیان کی نفی کرتے ہیں۔ جوبائیڈن نے نہ صرف صدارتی اُمیدوار بننے کے لیے تمام پرائمریز میں حصّہ لیا بلکہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی نام زدگی کے مطلوبہ ووٹ بھی حاصل کرچُکے تھے۔

صدارتی اُمیدوار کے انتخاب کا طریقۂ کار یہ ہے کہ کسی بھی اُمیدوار کو چار ہزار ڈیلی گیٹس کی، جو پارٹی ارکان ہوتے ہیں، اکثریت حاصل کرنا ہوتی ہے۔اگر کوئی یہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے، تو دوسرے مرحلے کا مقابلہ ہوجاتا ہے، جس میں سُپر ڈیلی گیٹس شامل ہوتے ہیں، جو دراصل پارٹی رہنما اور منتخب ارکان ہوتے ہیں۔ اِس طرح کسی بھی اُمیدوار کو نام زدگی کے لیے1976 ووٹس درکار ہوتے ہیں۔ لازمی امر ہے کہ اُمیدوار کے انتخاب میں اَپر لیول پر جوڑ توڑ بھی ہوتا ہے۔

سو، ڈیموکریٹک پارٹی جس قدر جَلد اپنی صفیں درست کرے گی، اُتنا ہی اُس کے لیے بہتر ہوگا۔ سابق صدر ٹرمپ اِس وقت مقبولیت کے عروج پر ہیں، پھر یہ کہ قاتلانہ حملے کے بعد اُنھیں ہم دردی کے ووٹس بھی ملنے کا امکان ہے۔ دوسری طرف، اُن کی جماعت، ری پبلکن پارٹی بہت برق رفتاری سے امریکی ووٹرز کے دِلوں میں اُن کا بہادرانہ امیج ثبت کرنے میں کوشاں ہے۔نیز، حال ہی میں آنے والے اپیلز کورٹ کے اُس فیصلے نے بھی اُن کی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے، جس میں ٹرمپ کو تمام الزامات سے بَری کردیا گیا۔

بہرحال، جوبائیڈن کی دست برداری کی دو بڑی وجوہ ہیں۔ ایک تو اُن کی ضعیفی ہے، جس کی وجہ سے وہ پبلک معاملات اور سرکاری اجلاسوں میں بُری طرح ایکسپوز ہوئے۔ وہ پہلے صدارتی مباحثے میں ٹرمپ کے مقابلے میں ایک ہارے ہوئے باکسر کی طرح وار کرتے رہے اور چند ایک کے علاوہ اکثر وار مِس ہی گئے۔ اُن کی لکنت، بھولنے کی عادت اور لڑکھڑاہٹ جیسے مسائل بھی امریکی عوام کے سامنے اُن کا ایک کم زور امیج پیش کرتے رہے اور یقیناً وہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ کیا ایسا صدر مُلکی و عالمی معاملات میں اُن کی نمائندگی کرسکتا ہے۔

کیا یہ چین، روس اور یورپ کے گھاگ لیڈرز کے سامنے امریکا کی قوّت منوا سکے گا۔آج کل امریکی سیاست اور معاشرے میں تقسیم کا بہت ذکر ہوتا ہے اور اِنہی وجوہ کی بنا پر اُن کی کارکردگی سے مایوس ہوکرخود اُن کی پارٹی کے منتخب ارکان نے اُنہیں دست بردار ہونے کا مشورہ دینا شروع کردیا اور اُن کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا تھا۔ پھر امریکی سیاست میں فنڈز دینے اور اکٹھا کرنے والوں کی بنیادی اہمیت ہوتی ہے، اُن میں سے بھی بہت سے افراد نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تھا، جس سے پارٹی کی ساکھ اور مالیاتی پوزیشن متاثر ہو رہی تھی۔

ایک طرف قوم پرست ٹرمپ اور اُن کے پُرجوش ووٹرز ہیں، تو دوسری طرف روایتی ڈیموکریٹس۔ امریکی اور مغربی میڈیا ڈیموکریٹس کا کُھل کر ساتھ دیتا ہے۔ طاقت وَر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہاؤسز، ڈیموکرٹس کو ضرورت سے زیادہ فیور دیتے ہیں۔ اِس کا اندازہ اِس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ کمیلا ہیرس کو ابھی پارٹی کی باقاعدہ نام زدگی حاصل نہیں ہوئی، لیکن اے پی پی نے ایک پول کر کے بتا بھی دیا کہ کمیلا کو مطلوبہ تعداد سے زیادہ سپورٹ حاصل ہوگئی ہے اور19 اگست کا کنونشن صرف ایک رسمی کارروائی ہوگی۔ اِسی لیے کمیلا نے پول کے فوراً بعد کہہ دیا کہ ہمیں ٹرمپ کے مقابلے کے لیے آج سے 106 دن مل گئے ہیں۔

عام طور پر یہ ایگزٹ پول مغربی جمہوریتوں میں اہمیت رکھتے ہیں، لیکن کبھی کبھی بازی پلٹ بھی جاتی ہے، اِسی لیے آخری دن تک اعلان کا انتظار کیا جاتا ہے۔ فرانس اور بھارت کے انتخابات میں ایسا ہی ہوا۔ اُدھر سوشل میڈیا پر شروع ہی سے ٹرمپ کی غیرمعمولی مقبولیت رہی ہے، اُن کا جارحانہ انداز پسند کیا جاتا ہے اور اس چھوٹے پلیٹ فارم پر وسیع حلقہ رکھتا ہے۔

ٹرمپ ہی نے اپنے پہلے صدارتی دَور میں سرکاری پریس ریلیز کی جگہ ٹوئٹر کے استعمال کی بنیاد ڈالی تھی، جو اب دنیا بَھر میں رائج ہے۔ ٹرمپ کا یہ جارحانہ سوشل میڈیائی انداز امریکی شہریوں کو بہت بھایا اور پہلی بار کی جیت میں اس کا اہم حصّہ بھی رہا، لیکن اِس سوشل میڈیا مہم کا ایک منفی پہلو یہ بھی تھا کہ بہت سے ممالک میں اس کی اندھی تقلید کی گئی، یہ سوچے بغیر کہ امریکی معاشی ترقّی، سیاسی پختگی، دو پارٹی نظام، صدر کے لامحدود اختیارات اور پالیسیز میں امریکی مفادات کی اوّلیت کسی بھی لیڈر یا صدر کو کبھی اِدھر اُدھر ڈگمگانے نہیں دیتے۔ لیکن اُن ممالک میں جہاں اِس سوشل میڈیا مہم کی نقل یا اندھی تقلید کی گئی، خوف ناک اثرات سامنے آئے۔

پاکستان کی مثال سامنے ہے، جہاں فیک نیوز دردِ سر بن چُکی ہیں۔یوٹیوب ویڈیوز کے تھمب نیل میں سُرخیاں کچھ اور اندر کچھ ہوتا ہے۔پھر یہ کہ سوشل میڈیا عوام کو گم راہ کرنے کے ساتھ جرائم اور دھوکا دہی کا بھی ذریعہ بنا ہوا ہے۔ اس سے انسانی اسمگلنگ فروغ پائی، جس میں سیکڑوں جانیں ضائع اور لوگوں کے اثاثہ جات برباد ہوئے۔ خود مین اسٹریم میڈیا اِس کے دباؤ میں ہے۔ ہر ایرے غیرے کی دانش وَری اور انکشافات سُن سُن کر قوم نیم پاگل ہوچُکی ہے۔ 

آزادیٔ رائے کی یہ شکل ایک ناخواندہ اور غیر جمہوری معاشرے میں عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے۔ اِس سوشل میڈیا سے کلٹ پیدا ہوتے ہیں۔بداخلاقی، بدتمیزی، گالم گلوچ اور مخالفین کو دشمن سے بھی بدتر سمجھنا رواج بن چُکا ہے۔ اِسی طرح کے رویّوں سے معاشرہ اور نظام عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے اور افراتفری میں عوام بھول جاتے ہیں کہ کسی بھی قوم کی منزل لیڈر نہیں، ترقّی ہوتی ہے۔ مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے قوم کو گھیر لیتے ہیں، جس میں لوگ بے سمت ہاتھ پائوں مارتے پِھرتے ہیں۔

جو بائیڈن نے جاتے جاتے اپنی نائب صدر کمیلا ہیرس کو اپنی طرف سے صدارتی اُمیدوار نام زد کیا ہے۔59سالہ کمیلا کو کچھ ایڈوانٹیجز بھی حاصل ہیں۔ انھیں نائب صدرات کے چار سالہ تجربے سے مُلکی امور سمجھنے کا موقع ملا۔وہ پہلی غیر سفید فام خاتون ہوں گی، جنہیں اگر نام زگی مل گئی، تو صدارتی ریس میں دوڑ سکیں گی۔ بائیڈن ایک سو ملین ڈالرز کا فنڈ پہلے ہی حاصل کرچُکے تھے اور اُن کی دست برداری کے بعد فنڈ ریزنگ میں تیزی آئی۔2024 ء کے صدارتی الیکشن میں عُمر کی بحث بھی اہمیت اختیار کرنے لگی ہے۔

بائیڈن کی دست برداری اسی کی مرہونِ منّت ہے، جب کہ اب ٹرمپ بھی اِس معاملے میں تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں، گو قاتلانہ حملے کے بعد اُن کی بہادری نے صُورتِ حال اُن کے حق میں کردی ہے۔ ری پبلکن، بائیڈن کی عُمر کا ایشو اُچھالتے رہے، لیکن اب کمیلا ہیرس کے میدان میں آنے کے بعد اُنھیں اپنی حکمتِ عملی بدلنی پڑے گی۔ کمیلا، بھارتی نژاد امریکن ہیں، ان کی والدہ 1958ء میں بھارت سے امریکا پڑھنے آئی تھیں اور پھر ایک جمیکن پروفیسر سے شادی کرکے یہیں بس گئیں۔

امریکا میں بھارتی کمیونٹی بہت با اثر ہے اور وہ کُھل کر کمیلا پر فخر کرتے ہیں۔ وہ صدارتی اُمیدوار یا صدر بنیں یا نہ بنیں، لیکن برطانوی وزارتِ عظمیٰ کے بعد امریکی صدارت کی طرف بڑھنا بھارت کے لیے ایک اہم بین الاقوامی پیش رفت ہے۔ اب پاکستانی تارکینِ وطن کو بھی اپنی صفیں ازسرِ نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے کہ اپنے لایعنی اختلافات کو دشمنی میں بدل کر اُنہیں یہ بھی ہوش نہیں رہا کہ پچیس کروڑ ہوکر بھی وہ سب کچھ ہارتے جارہے ہیں۔ اندرونِ مُلک بھی اور بیرونِ مُلک بھی۔

اِس وقت امریکا میں کوئی بڑا اقتصادی مسئلہ ہے اور نہ ہی خارجہ امور میں کسی پریشانی کا سامنا۔یوکرین اور غزہ جنگ پر امریکا کا موقف اور سپورٹ بالکل واضح ہے اور اس میں کسی بڑی تبدیلی کی گنجائش بھی نہیں ہے۔ ٹرمپ، امریکا کو جنگ سے دُور رکھنے کے حامی ہیں، لیکن وہ بھی اِن دونوں معاملات میں قومی موقف ہی کی حمایت کرتے ہیں۔وہ جنگ تو نہیں چاہتے، لیکن یوکرین اور اسرائیل کی برتری اُن کی بھی خواہش ہے۔ 

ویسے بائیڈن نے بھی کسی جنگ میں امریکی بوٹ نہیں اُتارے، افغانستان سے فوجوں کی واپسی مکمل کی، جو ٹرمپ کے دَور میں شروع ہوئی تھی۔امریکا نے بڑی حکمتِ عملی کے ساتھ یوکرین اور اسرائیل کو سپورٹ بھی کیا اور براہِ راست اس میں الجھنے سے گریز بھی۔ٹرمپ بھی غالباً یہی پالیسی جاری رکھیں گے۔ ٹرمپ کا سب سے اہم مسئلہ امیگریشن ہے اور اُن کی پارٹی اِسی پر زیادہ زور دیتی ہے۔ وہ شاکی ہیں کہ بائیڈن نے اِس سلسلے میں ناکافی اقدامات کیے۔ سرحدیں محفوظ کیں اور نہ ہی تارکینِ وطن کی آمد روکی،جو امریکا کے لیے بوجھ ہیں اور بقول اُن کے سیکیوریٹی رسک بھی۔

کمیلا ہیرس یا کسی دوسرے ڈیموکریٹک اُمیدوار کو اِس معاملے پر اپنا منشور واضح طور پر امریکی عوام تک پہنچانا ہوگا اور ٹرمپ کی پالیسی کا متبادل بھی دینا ہوگا۔ تارکینِ وطن کا معاملہ اب براہِ راست قوم پرستی سے جڑا مسئلہ بن چکا ہے اور یورپ اِس معاملے میں ٹرمپ کا ہم نوا ہے۔

بائیڈن نے کوشش کی تھی کہ خارجہ امور میں جارحانہ انداز اپنا کر اپنی گھٹتی مقبولیت کا مداوا کریں، لیکن یوں لگتا ہے کہ امریکی قوم کو اس سے کوئی خاص دل چسپی نہیں رہی۔ مشرقِ وسطیٰ اور افغانستان میں تجربات کے بعد وہ ایسے ایشوز سے بے زار نظر آتے ہیں۔ اُن کا رویّہ کچھ ایسا ہے کہ’’ ہماری بلا سے کون جیے، کون مرے۔‘‘

امریکا اپنا فوکس انڈوپیسیفک کی طرف موڑ چُکا ہے، جہاں چین اُس کا حریف ہے۔اِسی لیے دنیا، خاص طور پر مسلم ممالک اور تارکینِ وطن کے مسلسل احتجاج کے باوجود اسرائیل دس ماہ کے بعد بھی اپنی جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے اور امریکا، یورپ، برطانیہ اُس کے ساتھ ہیں، جب کہ روس اور چین خاموش ہیں۔ غور کریں، تو آج کی دنیا کی تمام تر توجّہ معیشت ہی پر ہے۔ہم خوابوں کے مسافر امریکا اور دوسرے ممالک کے الیکشنز کو اپنی ہی خواہشات کے پیمانوں سے جانچتے ہیں، جو عموماً پوری نہیں ہوتیں اور پھر شدید مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

امریکی انتخابات میں بائیڈن کے جانے سے اندرونی پالیسیز اور تارکینِ وطن کے معاملات تو زیرِغور آئیں گے، لیکن شاید وہ کچھ بھی نہیں ہوگا، جن کی پیش گوئیاں ہماری خواہشات کرتی ہیں۔