قارئین کرام !ماہ اگست، ہمارے بزرگوں کی عشروں کی بے مثال علمی، سیاسی و نظریاتی تحریک آزادی و حصول وطن کا مہینہ ہے۔ گویا سالانہ جائزہ وتجزیے کا کہ:ہم نے اپنے آزاد و آباد وطن میں کیا کھویا اور کیا پایا؟کس حال میں ہے وطن اور یاران وطن؟ آئیں!شرمسار ہو کر پہلے تو مان لیں کہ حصول آزادی و وطن کے 77سال بعد آبادی جو دو اڑھائی سال سے بڑھ کر 25کروڑ کو پہنچاچاہتی ہے مضطرب ہے، نصف سے زائد غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی یہ گراف بڑھ رہا ہے اس کی آزادی سوال بن گئی ہے، اس کی جکڑ پکڑ کوئی ایک طرف سے نہیں حکمران طبقہ جتنا امیر وکبیر ہو گیا عوام اتنے ہی اجڑ گئے بشرطیکہ ہم زمانے کی رفتار کے مطابق غریب غرباء کو بھی عوام مانیں ۔اس جائزے کی اب ضرورت نہیں کہ عوام جس مافیہ راج کی جکڑ میں عشروں سے ہیں انہوں نے خود پاکستان سے کیا لیا اور اسے کیا دیا۔ہماری کوئی بھی توکل سیدھی نہیں رہی کسی بھی شعبہ زندگی میں ہم صراط مستقیم پر نہیں ۔نفاق ، بے ایمانی اور انتشار دنیا میں ہماری پہچان بن گیا جس سے ہم نے اتحاد و ایمان و تنظیم کو چاروںشانے چت کر دیا۔جتنے جائزے تجزیے ہوتے ہیں اس میں ابتدا سے تادم آئین سازی، بنا تو اس کے نفاذ و جمود ،جتنا اطلاق ہوا، اس کے بھی سخت متنازع ہونے کو وطن کے ابتر حالات حاضرہ کی اول و آخر وجہ بتایا جاتا ہے۔ سب سے بڑا ستم یہ کہ پوٹینشل کی کمی تو نہیں ہر عشرے کی ہوتی ترقی اور کارناموں کو ہم ساتھ ساتھ بڑے بڑے ڈیزاسٹر کرکے برباد، غیر محفوظ اور متنازع بنانے والی سب سے بڑی ’’خودکش‘‘ قوم ہیں۔ یہ تو ہماری 77سال تاریخ کے بعد آج کی بدتر اور مضطرب صورتحال ہے اس کے تجزیے و وجوہات اور ذمے دار ناقابل گرفت قومی ملزموں اور مجرموں پر کئی جلدوں برابر پرآشوب تاریخ پر ہم کتنا روئیں دھوئیں؟
اب تو تاریخ کو قابو میڈیا اور پولیٹکل اکانومی آف میڈیا کے زور پر مسخ کرنے کا سلسلہ بھی دیدہ دلیری سے جاری ہے لیکن اس سب سیاسی کھلواڑ کے باوجود مایوسی پھر بھی نہیں کہ ہر دور اور عشرے میں عوام اور ماورا ئےآئین یا پامالیِ آئین کرنیوالے رجیمز کی کشمکش تو جاری ہے۔تشویش ناک امر یہ ہے کہ آج پاکستان کے حالات حاضرہ کی تصویر بالکل واضح ہے اور اس کے مطابق مطلوب حل بھی، جس پر عملدرآمد کرنے میں موجود سخت متنازع، عوام کو مکمل ناقابل قبول حکومت کے کوئی رکاوٹ نہیں۔مان لیا کہ الیکشن 18کی معمول کی بے قاعدگیوں جزواً اور آلودہ انتخابی عمل کی کوالٹی بھی پی پی اور ن لیگی ادوار میں الیکشن کوالٹی کے ہی جیسی تھی اسی معیار کے الیکشن سے نئی پارلیمانی قوت اقتدار میں آئی یا لائی گئی۔ یہ ہو ا تو اسے جیسے تیسے کرکے دوران عالمی وبا منطقی مہنگائی کی آڑ میں غیر مقبول اور روایتی داخلی ریشہ دوانیوں سے بذریعہ ہارس ٹریڈنگ اور بیرونی دھمکیوں سے ختم بھی تو کردیا گیا۔یہ بھی قابل ہضم کہ 16جماعتی اتحاد سے مہنگائی کنٹرول تو کیا ہوتی آسمان پر پہنچا دی ،معیشت کو سنبھالنے کی دعویدار حکومت نے ایک ہی سال میں ترقی کی سالانہ شرح 6.1کو زمین سے لگا دیا سب سے بڑا ستم آئین کی پابندی و پیروی سے متصادم ضمنی انتخا ب کے نتائج اور عمران کی فوری بحالی اور تیزی سے بڑھتی مقبولیت سے خوفزدہ ہو کر ایک عشرے سے جاری انتخابی عمل کے ارتقا کو ہی مسلسل کھلواڑ سے منقطع کر دیا۔ الیکشن کمیشن متنازع نحیف اور غیر مقبول ہوتی حکومت دیدہ دلیری سے واضح حلیف اور اپوزیشن کا حریف بن گیا ،تیزی سے بگڑتی معیشت اور عدم سیاسی استحکام کے باوجود انتخابات سے مکمل گریز پر شہباز حکومت اور اس کے بعد آئین کی پابندی اور عدالتی فیصلوں سے مجرمانہ انحراف کرتے جس طرح جنرل الیکشن اور پنجاب و خیبر پختونخوا کی ٹوٹی اسمبلیوں کے آئینی حوالے سے ناگزیر الیکشن پراسس کو زور زبردستی سے روک کر جیسے ملک چلا اس نے قومی سیاسی استحکام اور معیشت کی بحالی کے امکانات بالکل ختم کر دیئے۔ اب اپنے سمیت ہر جماعت میںبیانیہ عام ہے کہ حکومت نہیں چل رہی ۔ہر محب وطن اور فکرمند پاکستانی کا سر چکرانے والے اس گھمبیر سیاسی پس منظر میں اب پھر حالات میں قدرے بہتری آنے، دوست ملکوں کے بھی پریشان ہو جانے پر الیکشن 24کے حقیقی نتائج کی شدید مطلوب فوری بحالی سے ابتری و اضطراب کی مکمل قابل قبول اور عزت مندانہ جوصورت قانونی عمل سے بنتی نظر آ رہی ہے اس میں ایک بارپھر بڑی تشویشناک رخنہ جاری عدالتی عمل میں سیاسی آمیزش سے تباہ کن ہو گا، اس حوالےسے مخصوص نشستیں کیس میں سپریم کورٹ کے فل بینچ کے 8جج صاحبان کے حتمی آئینی فیصلے سے 2جج صاحبان کے غیر معمولی اختلافی نوٹ سے پاکستان کو شدید ابتر حالت سے فوری نکالنے سے ہر باشعور شہری کا ماتھا ٹھنک گیا ہے۔ شکر ہے کہ جج صاحبان کے ساتھی اکثریتی ججوں سے اختلافی نوٹ درج کرانے کی پیشہ ورانہ گنجائش کی طرح خاکسار جیسے عام شہری کوبھی یہ قانوناً حق ہے کہ وہ عدالتی فیصلوں اور اختلافی نوٹ کا احترام اور انہیں قبول کرتے ہوئے ان پر تنقید و تجزیے کا فائق حق رکھتا ہے اسی جمہوری رعایت سے فائدہ اٹھاتے اور زیر بحث اختلافی نوٹ پر براہ راست تجزیہ و تنقید کئے بغیر عدالتی کارروائی کو نوٹ کرنے والے کو رٹ رپورٹرز سے التماس ہے کہ وہ کسی ایسے ریکارڈڈ اختلافی نوٹ کی بصورت خبر نشاندہی کر سکتے ہیں کہ کسی جج صاحب نے کبھی ایسا اختلافی نوٹ لکھا ہے جس میں ریاستی اداروں ، محکموں کو یہ ترغیب دی گئی ہو کہ وہ اکثریتی ججز کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کریں اور اگر ایسا کسی اختلافی نوٹ میں کیا گیا ہےتو واقعی کسی محکمے یا سرکاری ادارے نے اس پر عملدرآمد میں مزاحمت کی ہو؟ متذکرہ کیس میں بینچ کے سینئر جج صاحب کو جس طرح پبلک ایڈریس سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا دفاع اور انتباہ کرنا پڑا اس سے مکمل واضح ہو رہا ہے جو انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے کہ اب ہر گنجائش ختم ہونے پر پھر بڑے عدالتی بحران سے مرضی کے سیاسی نتائج نکالنے کی دیدہ دلیری کی جا رہی ہے اس حوالے سے پارلیمان میں حکمران جماعت اور اس کی اتحادی جماعتوں کی قانون سازی ایک بڑے انتشار پیدا کرنے کی دانستہ کوشش کا و اضح اشارہ ہے جو ملکی مفادات سے کھلم کھلاتصادم ہے ۔