بی ایل اے کے دہشتگردوں نے ظلم و بربریت کی تمام حدیں پار کر دیں۔ بلوچستان میں حالیہ حملوں میں ان درندوں نے ثابت کیا کہ وہ نہ صرف پاکستان کے دشمن ہیں، بلوچستان اور بلوچ قوم کے دشمن ہیں بلکہ وہ انسانیت کے بھی دشمن ہیں۔ ان دہشتگردوں کے لیے تو سفاکی، درندگی، حیوانیت جیسے الفاظ بھی ناکافی ہیں۔ یہ ظالم کس چیز کا بدلہ معصوم اور غریب اُن پنجابیوں سے لے رہے ہیں جو بلوچستان میں محنت مزدوری کے لیے جاتے ہیں یا جو مسافر ہیں۔ اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ اُن کے اس ظلم کے جواب میں پنجاب میں عام بلوچوں کے خلاف کوئی نفرت پیدا ہو گی اور ملک بدامنی کی طرف چلا جائے گا تو ایسا نہیں ہو گا۔ پنجاب ہو، خیبر پختون خوا یا سندھ یا پاکستان کا کوئی بھی خطہ وہ اُتنا ہی ہمارے بلوچ بھائیوں کا ہے جتنا وہ کسی دوسرے خطے میں رہنے والوں کا ہے۔ ہم پاکستانی بی ایل اے اور بلوچستان میں سرگرم دوسری دہشتگرد تنظیموں کی دہشتگردی کی وجہ سے اپنے بلوچ بھائیوں یا کسی دوسرے معصوم پاکستانی سے نہ نفرت کریں گے نہ اُنہیں اپنے سے ددرکریں گے۔ ان دہشتگردوں کی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ بلوچستان میں جو ہوا اُس کی سب مذمت بھی کررہے ہیں اور اُس پر سب اداس بھی ہیں۔ اس موقع پر اچھا ہوتا گمشدہ افراد کے لیے لڑنے والی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بھی کوئی مذمتی بیان دے دیتی، یہ مطالبہ کر دیتی کہ حالیہ واقعات کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے اُنہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اچھا ہوتا کہ ماضی قریب میں گمشدہ افراد کے حق میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دھرنا دینے والی بلوچ یکجہتی کمیٹی بھی کوئی مذمتی بیان دے دیتی۔ بلوچستان میں رہنے والے بلوچوں کی اکثریت پر امن ہے، وہ پاکستان سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ وہاں کے سردار، وہاں کے نواب ، وہاں کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اور ممبران سینٹ، وہاں کے سیاستدان سب کو بی ایل اے اور دوسری دہشتگر د تنظیموں کے مظالم کے خلاف یک زبان ہو کر بولنا چاہیے۔ اگر دہشتگردوں کے خلاف بولیں گے نہیں، اُن کے ظلم کو روکنے کے لیے آگے نہیں بڑھیں گے تو یہ ظالم تو پھر پاکستان کے دشمنوں کے کہے پر کسی کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ انہی دہشتگردوں نے حال ہی میں ایک بلوچ ڈپٹی کمشنر کو شہید کیا، کیا حالیہ دہشتگردی کے واقعات میں چند ایک بلوچ اور پختون بھی نشانہ نہیں بنے۔ کیا جو بی ایل اے اور دوسری دہشتگرد تنظیمیں وہاں کر رہی ہیں اور جس کا مقصد بلوچستان کی ترقی کو روکنا ہے وہ بلوچستان کے عوام کے لیے کسی بھی طور پر حق میں ہے۔ یہ دہشتگرد تو بلوچوں کی تعلیم اور اُن کی صحت کے بھی دشمن ہیں۔ یہ دہشتگرد تو اُن اساتذہ کو بھی مار رہے ہیں جو بلوچستان میں تعلیم دینے کا فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ یہ تو ڈاکٹروں، انجینئروں کو بھی قتل کر رہے ہیں۔ان دہشتگردوں کو دشمن خوب پیسہ کھلا کر پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ یہ بلوچستان کےعوام کو نفرت بیچ کر، اُنہی کے نام پر دہشتگردی کر کے انہی کو خوشحالی اور ترقی سے دور کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے عوام، وہاں کے سرداروں، نوابوں اور سیاستدانوں سب کو پاکستانی کی خاطر، بلوچستان کی خاطر آواز بلند کرنی پڑے گی تاکہ بلوچستان میں دہشتگروںکو کوئی پناہ گاہ نہ ملے۔حکمران ہوں، فوج یا ریاست کا کوئی اور ذمہ دار سب کو بلوچستان کی ترقی، تعلیم، صحت، کاروبار اور عوام کی خوشحالی کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے تا کہ جو پیسہ بلوچستان کو ملتا ہے وہ وہاں کےعوام پر خرچ ہو۔ جہاں تک فوج ، ایف سی، پولیس، لیویز اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا تعلق ہے اُن کی قربانیوں کو قوم سلام پیش کرتی ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ سب مل کر جلد ہی بلوچستان کو دہشتگردی کے فتنےسے پاک کریں گے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)