• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دورِحاضر کی جدید تاریخ میں 30اگست کا دن خاص اہمیت رکھتا ہے جب آج سے 102سال پہلے 30اگست 1922ء کو جدید جمہوریہ ترکیہ کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک نے مغربی استعماری قوتوں کو شکست فاش دیکر تُرک قوم کے موجودہ ملک کی بنیادرکھی، یہ دن جمہوریہ ترکیہ میں ہر سال وکٹری ڈے کے طورپر شان و شوکت سے منایا جاتا ہے، اس دن ترکیہ میں سرکاری تعطیل ہوتی ہے اور عوامی سطح پر ایک سو دو سال قبل کی تاریخی فتح کی مناسبت سے مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ گزشتہ صدی میں جنگ عظیم اول کا آغاز ہواتواپنے زمانے کی عظیم الشان سپرپاور تُرکوں کی خلافت ِ عثمانیہ کا راج دنیا کے تین براعظموں پر قائم تھااورموجودہ دنیا کے بیشتر مسلمان ممالک کا کنٹرول تُرکوں کے پاس تھا، تاریخی طور پر ہندوستان کبھی بھی خلافت کے زیرانتظام نہیں رہا لیکن اس زمانے میں ہندوستان کے باسیوں کا تُرک قوم کے ساتھ نہ صرف صدیوں سے لازوال لگائو اور عقیدت کا رشتہ قائم تھا بلکہ وہ خلافت کے تحفظ کو بھی اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے تھے، آج بھی دونوں خطے ثقافتی لحاظ سے بھی ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں، برصغیرکی پہچان اور ہماری قومی زبان اردو بذاتِ خود ترک زبان کا ایک لفظ ہے، بہت سے ترک پکوان اور ملبوسات ہماری روزمرہ زندگی کا اہم جز ہیں۔آج سے ایک سو دو سال قبل جب جنگ عظیم اول کے بعد تُرک اپنی بقا کی جنگِ آزادی لڑنے میں مصروف تھے تو انہیں عالمی سطح پر صرف ایک ہی خطے کے عوام سے پرخلوص حمایت اور عملی مدد موصول ہوئی اور وہ ملک تھا برطانوی راج کے زیرانتظام ہندوستان۔ مولانا محمد علی جوہر کی زیر قیادت برصغیر کے مسلمانوں نے ترکوں کی حمایت میں تحریکِ خلافت شروع کی تو انکی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے ہر مکتب فکرسے تعلق رکھنے والے سڑکوں پر نکل آئے،تُرکوں کی حمایت میں اس زمانے میں ہندومسلمان اتحاد اپنے عروج پر پہنچ گیا تھا، مہاتما گاندھی نے انگریز سامراج پرعوامی دباوئ بڑھانے کیلئے مذہبی ہم آہنگی کا فقید المثال مظاہرہ پیش کرتے ہوئے اعلان کیاکہ اگرچہ خلافت مسلمانوں کا مذہبی معاملہ ہے لیکن جب ہمارے مسلمان بھائی بے چینی کا شکار ہیں تو ہم کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔تحریک خلافت کے مسلمان اکابرین کے شانہ بشانہ گاندھی جی،لالہ لاجپت رائے اورسوامی شردھا نند سرسوتی سمیت دیگر ہندولیڈران بھی جلسے جلوسوں میں شریک ہوتے اور مذہبی تفریق سے بالاتر ہوکراپنی تقریروں سے عوام کا لہو گرماتے، مغربی استعماری قوتوں کے خلاف نبردآزماترکوں کی مالی مددکیلئے چندہ مہم شروع کی گئی توہندوستان کی خواتین نے اپنے بیش قیمت ہیرے جواہرات سے مزین زیورات کا ڈھیر لگا دیا، کہا جاتا ہے کہ آزادی کے بعدجدید جمہوری تُرک ریاست کا قومی ریزروبینک قائم ہوا توسونے کے ذخائر کا بڑا ماخذہمارے خطے کی خواتین کی جانب سے عطیہ کردہ زیورات تھا۔کمال اتاترک کی قیادت میں آخرکار 30اگست 1922ء کو برطانوی سامراج و دیگر مغربی استعماری قوتوں کو آخری شکست سے دوچار کردیا گیا اور دنیا کے نقشے پر ماضی کی تابناک روایات اور روشن مستقبل کی امید یں لیے جمہوریہ ترکی کے نام سےایک نیا ملک اُبھرا۔بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اتاترک مصطفیٰ کمال پاشا کے بہت بڑے مداح تھے اور بہت سے مواقع پر انکی اپنے وطن کیلئے ولولہ انگیز جدوجہد آزادی کو سراہتے تھے، قائداعظم کی زیرقیادت تحریکِ پاکستان کے نتیجے میںہمارا آزاد خودمختار ملک معرض وجود میں آیا تو دونوں ممالک بہت تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آئے،جمہوریہ ترکی کا شمارآزادی کے فوراََ بعد پاکستان کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں ہوتا ہے،آج کا ترکیہ وہ واحد ملک ہے جو آزادی سے پہلے بھی پاکستان کے ساتھ تھا اور آزادی کی سات دہائیاں بیت جانے کے بعد بھی دوطرفہ دوستی تسلسل کے ساتھ قائم و دائم ہے، دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت سفارتی سطح پر مختلف عالمی ایشوز پر یکساں موقف رکھتی ہے، ماضی میں ایسی خبریں بھی منظرعام پر آئیں کہ دونوں ممالک کے شہریوں کومشترکہ پاسپورٹ کے اجراکی تجاویززیرغور ہیں۔ مجھے اپنی زندگی میں بہت مرتبہ ترکیہ کا دورہ کرنے کا موقع ملا ہے، پاکستان کا ذکرآتے ہی پرانی نسل کے تُرک لوگ ماضی کی خوشگوار یادوں میں کھو جاتے ہیں، تاہم آج کی ترک نوجوان نسل ہم سے کچھ بدظن بھی نظر آتی ہے جسکی بڑی وجہ میری نظر میںچند پاکستانیوں کا غیرقانونی طور پر بذریعہ ترکیہ یورپ جانے کی کوششیں اور سماجی جرائم میں ملوث ہونا ہے۔میں نے پاکستان ترکیہ تعلقات کے حوالے سے چار سال قبل فروری 2020ء میں اپنے اخباری کالم بعنوان دو ممالک ایک قوم میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے منسوب ایک واقعہ کا تذکرہ کیا تھا، میاں صاحب سے جولائی 1993 میںدورہ انقرہ کے دوران ترکی کے صدر سلیمان ڈیمیرل نے کہا کہ جناب وزیر اعظم صاحب! آپ بھی مسلمان ہیں اور میں بھی، ہم دونوں بھائی بھائی بھی ہیں، پاکستان ترکی کے درمیان صدیوں کے رشتے بھی قائم ہیں، اب آپ بتائیں کہ آپ کے پاس ترکی کو فروخت کرنے کے لئے کیا ہے ا ور ہم آپ کو بتاتے ہیںکہ ترکی آپ کو کیا فروخت کر سکتا ہے ۔اس سے ہمارے تعلقات آگے بڑھیں گے اور دوستی مضبوط ہوگی۔ یہ نوے کی دہائی کی بات ہے جب ترکی میں غربت، معاشی بدحالی، مہنگائی اور بے روزگاری زوروں پر تھی لیکن ترک قیادت اپنے ملک کو ایک امن پسند، ترقی یافتہ اور اقتصادی قوت کے طور پر منوانے کیلئے پُرعزم تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج ایسی ہی نازک صورتحال کا ہمارے پیارے ملک پاکستان کو بھی سامنا ہے، ہمیں مالک نے ہر قسم کے وسائل سے نوازا ہے لیکن ہم کشکول اٹھائےدنیا بھر میں صدائیں لگارہے ہیں۔آج جمہوریہ ترکیہ کے وکٹری ڈے کے موقع پر ہمیںترک عوام کے ساتھ اظہارِیکجہتی کرتے ہوئے یہ امر نہیں بھولنا چاہیے کہ آج کی دنیا میں وہی ملک اپنا موقف منوانے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کے پاس سرما یہ، ٹیکنالوجی اورہنرمند افرادی قوت ہو، جو ممالک عصرحاضر کے تقاضوںسے آنکھیں چراتے ہوئے حقیقت پسندانہ رویہ نہیں اپناتے،وہ روزبروز عالمی برادری کی نظر میں بے وقعت ہوتے چلے جاتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین