ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا ہے کہ ہم معاشی طور پر ڈیڈ اینڈ پر پہنچ چکے ہیں، حکمران ملکی معیشت ٹھیک کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔
گزشتہ روز 3 حکومتی کمیٹیوں سے استعفیٰ دینے والے ڈاکٹر قیصر بنگالی نے جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں اظہار خیال کیا۔
انہوں نے کہا کہ کفایت شعاری، وفاقی اخراجات میں کمی اور رائٹ سائزنگ کی کمیٹیاں بنیں، میں نے رائٹ سائزنگ کمیٹی سے استعفیٰ دیا، پہلی دو کمیٹیاں تو پہلے ہی ختم ہوگئی تھیں۔
ماہر معاشیات نے مزید کہا کہ میرا موقف ہے معیشت کو استحکام دینے کےلیے اخراجات کم کرنے ہوں گے، 100 روپے کی آمدنی پر 220 روپے کے اخراجات نہیں کیے جاسکتے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم 20، 25 سال سے یہ کر رہے ہیں اور قرضے سے خسارہ لے رہے ہیں، ایسے معیشت چل ہی نہیں سکتی، ہم ڈیڈ اینڈ پر پہنچ چکے ہیں۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ کمیٹی میں شامل کیا گیا تو میں نے کہا اپنا حصہ ڈالوں، کافی عرصہ گزارنے کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ لوگ تو سنجیدہ نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پرائیویٹائزیشن کے یونٹس کو ہٹادیں تو کمیٹی نے 53 یونٹس کا جائزہ لیا، ان 53 میں صرف ایک یونٹ کو بند کرنے کا جبکہ باقی قائم رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ماہر معاشیات نے یہ بھی کہا کہ جب آپ کوئی ادارہ بند کرنےکو تیار نہیں ہیں تو پھر میرے رہنے کا فائدہ نہیں ہے، 53 یونٹس نان کمرشل ہیں، 17 یونٹس پرائیویٹائز کے ہیں وہ فیصلہ ہوگیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت فیصلوں پر عمل کررہی ہوگی لیکن جو طے ہوگا وہی عمل درآمد کرے گی، 53 میں سے 52 ادارے رکھنے اور صرف ایک بند کرنے کا فیصلہ ہوا تو اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنے ادارے بند ہوں گے۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ جو ادارے کوئی کام نہیں کررہے وہ قائم رہیں گے تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، میں نے موجودہ کمیٹی سے پہلےکی ایک کمیٹی میں رپورٹ پیش کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس میں 17 ڈویژنز کی نشاندہی ہوئی اور میں آئین کو لےکر چلا ہوں، چھوٹے سرکاری ملازمین کو فارغ کیا گیا، گریڈ 17 سے اوپر کے ملازمین پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔
ماہر معاشیات نے کہا کہ معیشت کو آہستہ اور بتدریج ٹھیک کرنے کی باتیں بہت عرصے سے سن رہے ہیں، حفیظ پاشا اور عشرت حسین کی قیادت میں بھی رائٹ سائزنگ کمیٹیاں بنی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی رپورٹس الماریوں میں چلی گئیں، مجھےخدشہ ہے اس دفعہ بھی یہی ہوگا، ایک ادارہ ہے سمیڈا، جب سے یہ بنا ہے اس کی کوئی کارکردگی نہیں ہے۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ ملک میں اسمال انٹرپرائزز کا کوئی انقلاب نہیں آیا، ٹیکسیشن اور بڑھتی بجلی قیمتوں کی وجہ سے ہزاروں اسمال انٹر پرائز بند ہوگئیں۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری ادارہ بناکر اس کا ڈی جی اپائنٹ کرکے اسے گاڑی اور دفتر دے کر انڈسٹریلائزیشن نہیں ہوسکتی، انڈسٹریلائزیشن کرنی ہے تو ٹیکس کم کریں، بجلی سستی کریں، لوڈ شیڈنگ کم کریں۔
ماہر معاشیات نے کہا کہ کمیٹی میں کافی بات ہوئی کہ آبادی میں اضافہ خطرناک ہے، آبادی سے متعلق 3 ادارے تھے، انہوں انہیں ختم کرنے بجائے کہا انہیں انضمام کردیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سمیڈا، پاپولیشن کونسل، فرٹیلیٹی ریسرچ جیسے ادارے بند کردینےچاہیے، بیوروکریٹ کو بٹھاکر کہیں انڈسٹریلائزیشن اور آبادی کم نہیں ہوگی۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ حکومت نےحال ہی میں مزید دو اتھارٹیز بنا دیں، کہتے تھے ادارے کم کرنے ہیں لیکن 2 اور ادارے بنادیے، مجھے اعتراض یہ ہے کہ ڈائریکشن نظر نہیں آتی کہ ہم کسی نتیجے پر پہنچیں گے۔