• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب عورتوں بچوں کو وطن عزیز میں کسی احتجاج کی قیادت کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے تو اس وقت پاکستان کے ہر علاقہ کی ثقافت یہ ہے کہ ان سے ہمدردی کی کیفیت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے اور اس امرسے سروکار نہیں رہتا ہے کہ آیا یہ سڑکوں پر موجود افراد کسی سیاسی عمل میں حصہ دار بن رہے ہیں یا در اصل یہ حقیقت پر نقاب ڈالنے کیلئے ایک سوچی سمجھی سازش رچائی جا رہی ہے ۔ نیتوں کے حال سے تو مالک حقیقی ہی آگاہ ہے اور اسی سبب سے جو افراد ان سے تعلق نہ رکھنے کے باوجود ان کی حمایت میں رطب اللسان ہوتے ہیں ان کی نیت پر شبہ کئے بنا کم از کم یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ وہ نہ تو ان کے حقیقی مسائل سے آگاہ ہیں اور نہ ہی یہ جانتے ہیں کہ انکے شانہ بشانہ ہونے کی وجہ سے حقیقی مسائل کے حل میں مزید دشواریاں در آتی ہیں۔ بلوچستان میں ایک ہی دن درجنوں انسانی جانیں خاک و خون میں غلطاں کر دی گئیں ۔ اس سے قبل بھی اس سے زیادہ افراد ایک ہی دن میں وطن عزیز میں دہشت گردی کا شکار ہوتے رہے ہیں مگر ایک ساتھ مختلف مقامات پر اتنے سارے واقعات وقوع پذیر نہیں ہوتے تھے اس لئے اس بار اس کا احساس صرف وقتی طور پر نہیں بلکہ ایک نفسیاتی ارتقا کے طور پر سامنے آ رہا ہے کہ آخر ایک سبزی فروش ، محنت مزدوری سے پیٹ پالنے والا کیوں مارا جا رہا ہے اور اس مار دھاڑ کے بعد بھی ایک طبقہ فکر یہ سوچ ہی پیش کئے جا رہا ہے کہ ان دہشت گردوں سے مذاکرات کئے جائیں اور ان دہشت گردوں کی جانب سے جن محترم خواتین کی آڑ لینے کی کوشش کی جا رہی ہےانکی ان اندوہناک واقعات پرخاموشی نیم رضامندی کو جائز قرار دینے کیلئے دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ ان سے بھی انکےافراد سےکئے جانے والے نا روا سلوک پر تعزیت ، مذمت نہیں کی گئی تھی ، اب ان سے تو سلوک نا روا ہوا یا نہیں بحث طلب سوال ہے کہ سچ کیا ہے ؟ مگر یہ دلیل ذرا اس بچے ، اس بیوہ کے سامنے پیش کریں جو ان بہیمانہ قتال کے واقعات کو اپنی ننھی سی عقل سے سمجھتے ہوئے اپنی ماں کا دامن پکڑ کر کہہ رہا تھا کہ بس سے نیچے اترنے کے بعد میرے بابا واپس نہیں آئے ، بات سوشل میڈیا کی نہیں، بس اس بچے کے سامنے یہ دلیل دے دیجئے اگر اتنی ہمت ہے ۔ جن کے منہ کو خون لگ جائے ان سے مذاکرات کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ پاکستان سے بہتر کون جانتا ہے ۔ عمران خان کے دور میں ان کی مکمل حمایت سے ٹی ٹی پی کے ہزاروں دہشت گردوں کو خیبر پختون خوا آنے کی اجازت دی گئی جس پر عمران خان کے انٹرویو گواہ ہیںبلکہ اپنی سیاسی منصوبہ بندی میں اس ساری حکمت عملی کو شامل کیا گیا ۔ اور خیال رہے کہ اس پالیسی کو صرف ایک گرفتار شخص کا فیض قرار دینا حقیقت کو بری طرح سے مسخ کرنے کے مترادف ہوگا ۔ اس کے نتائج کیا برآمد ہوئے ؟ سب کے سامنے ہے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ زمین فوجیوں ، پولیس ، انٹیلی جنس افسران اور شہریوں کے خون سے رنگین ہو رہی ہے ۔ مذاکرات کا ڈھول تو بس ایک سراب ہے جس سے مستقل امن حاصل نہیں ہو سکے گا ۔ اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے کہ پاکستان میں سی پیک کو شدید مشکلات میں ڈالنے کی غرض سے ان دہشت گردوں کو سرگرم کر دیا گیا ہے ۔ خارجہ معاملات سے یہ سب جڑا ہوا ہے تو پھر خارجہ محاذ پر ہماری صف بندی کیا ہے ۔ وزارت خارجہ سے منسلک مختلف انسٹیٹیوٹس وزارت خارجہ کے ریٹائرڈ افسران کی بس پناہ گاہیں بن کر رہ گئےہیں ۔ اگر ہم اس کی اسٹڈی کریں کہ سی پیک کے آغاز سے لے کر اب تک اس سے جڑے معاملات پر زبانی کلامی کام کی بجائے تحقیقاتی رپورٹس کتنی تیار ہوئی ہیں جن کو دنیا بھر میں زیر غور لایا جا رہا ہیں تو بد قسمتی سے جواب نفی میں آئیگا کہ ایسا تو کچھ نہیں ہو رہا ۔ دنیا جانتی ہے کہ سرکاری افسران فائل ورک سے لے کر کسی پالیسی پر عمل درآمد کے ذمہ دار ہوتے ہیں مگر وہ پالیسی کو تشکیل نہیں دیتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں ہر کام ہی انکے سپرد کر دیا جاتا ہے پھر نتائج و ہی برآمد ہوتے ہیں جو ہونے ہوتے ہیں ۔ فائل ورک اور پالیسی میکنگ میں فرق ہوتا ہے ۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ بلوچستان کے مسائل کو صرف داخلی سلامتی کے حوالے سے نہیں دیکھا جا سکتا بلکہ سلامتی کو برقرار رکھنے والے ادارے اور وزارت خارجہ کو اس حوالے سے ملکر کام کرنا ہوگا کیوں کہ یہ دونوں معاملات ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور اس حوالے سے ایک مربوط نظام اور حکمت عملی کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے اگر ایسا نہ کیا گیا تو صرف بلوچستان میں ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں ان دہشت گردوں کے نمائشی چہروں کیلئے ہمدردی کے جذبات سامنے آتے رہیں گے چاہے یہ لوگ مودی کو راکھی باندھنے کی خواہش کا اظہار کریں یا کلبھو شن یادیو کے حق میں دلائل دیں۔

تازہ ترین