• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

مَیں، جنوری 2010ء کو ایک سرکاری محکمے سے ریٹائر ہوا، تو دوسرے ہی روز صوبائی محتسب، پنجاب نے مجھے شاہینوں کے شہر، سرگودھا میں ایڈوائزر مقرر کردیا۔ میں اُس عہدے پر تقریباً ڈیڑھ سال تعینات رہا۔ محتسب کے ادارے سے حصولِ انصاف کے لیے نہ تو کورٹ فیس کی ضرورت ہوتی ہے، نہ ہی کسی وکیل کی۔ اس لحاظ سے یہ ادارہ عوام کوسرکاری محکموں کے خلاف فی الفور انصاف مہیّا کرتا ہے۔ 

تاہم، اگر صوبائی محتسب کم زور کردار کا مالک ہو، تو صوبائی محکمہ جات محتسب کے احکام کی پروا نہیں کرتے، لیکن اگر سخت گیر ہو، تو صوبائی محکمہ جات اس کے فیصلوں کا نہ صرف احترام کرتے ہیں، بلکہ ان پر فی الفور عمل درآمد بھی ہوجاتا ہے۔ یہاں لگ بھگ ڈیڑھ سال کی تعیناتی کے دوران مجھے کئی درخواستوں کے فیصلے، توثیق کے لیے صوبائی محتسب کو بھیجنے پڑے۔ ان میں سرگودھا کی ایک شوگر مل کا فیصلہ بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ میرے فیصلے کو اگرچہ صوبائی محتسب نے پہلے پہل غلط قرار دیا، لیکن بعدازاں اللہ تعالیٰ نے مجھے سرخ رُو کیا۔ اُسی فیصلے کی یہ مختصررُوداد پیشِ خدمت ہے۔

سرگودھا ڈویژن میں واقع ایک شوگر مل کے حوالے سے ایک کیس میرے پاس آیا، جس کے مطابق، مل مالک نے اپنی ذاتی مل کے لیے، غیر قانونی طور پر ایک کروڑ روپے کی سرکاری رقم سے ایک سڑک تعمیر کروائی تھی۔ مَیں نے کیس کا جائزہ لے کر تحقیقات کے لیے ہائی ویز کے محکمے کے انجینئر صاحبان کو طلب کیا، تو معلوم ہوا کہ مذکورہ شوگرمل کا مالک کسی سیاسی شخصیت کا قریبی عزیز ہے۔ مَیں نے تفصیل سے کیس اسٹڈی کرکے اور اور شوگرمل کی سڑک کے معائنے کے بعد متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر کو بھی طلب کیا اور محکمہ مال کا ریکارڈ دیکھا۔

ریونیو ریکارڈ کے مطابق مل کی طرف جانے والی وہ شاہ راہ اُس سیٹھ کی ذاتی ملکیت تھی اور ذاتی رقبے پر سرکاری رقم سے سڑک کی تعمیر قطعاً غیر قانونی تھی، لہٰذا اچھی طرح چھان بین کے بعد مَیں نے فیصلے میں تحریر کیا کہ اس سیٹھ سے ایک کروڑ روپے بطور مالیہ وصول کیے جائیں اور یہ فیصلہ توثیق کے لیے صوبائی محتسب کو بھیج دیا۔ چند روز بعد صوبائی محتسب نے فیصلہ پڑھنے کے بعد مجھے بلالیا۔ 

مَیں صوبائی محتسب کے دفتر پہنچا، تو وہاں ایک ریٹائرڈ سیشن جج بھی تشریف فرما تھے، جو اس وقت صوبائی محتسب کے دفتر میں مشیر کے عہدے پر فائز تھے۔ صوبائی محتسب غصّے میں تھے، میرے کمرے میں داخل ہوتے ہی بلاتمہید بولے۔ ’’آپ نے شوگرمل کیس کا فیصلہ غلط تحریر کیا ہے۔ یہ فیصلہ غیر قانونی ہے۔ جج صاحب نے یہ فیصلہ پڑھا ہے اور اِن کے مطابق بھی یہ فیصلہ غلط ہے۔‘‘ مَیں نے صوبائی محتسب کی بات سُننے کے بعد بڑے تحمّل سے جواب دیا کہ ’’مَیں بھی سول جج رہ چکا ہوں۔ 

یہ جج صاحب میرے پرانے ساتھی ہیں اور جب مَیں سول جج کے عُہدے پر تھا، تو اُس وقت یہ مجھ سے کئی سال جونیئر تھے۔‘‘ پھر میں نے جج صاحب سے پوچھا کہ کس قانون کے تحت میرا فیصلہ غلط ہے، تو انہوں نے کئی رولز نکال کر بتادیئے جو غیر متعلقہ تھے۔ مَیں نے حج صاحب سے سوال کیا۔’’حج صاحب! فرض کریں، مَیں سرگودھا میں2مربع زمین خرید کر صبح کی سیر کے لیے جاگنگ ٹریک بنوانا چاہوں اور اس ضمن میں حکومت سے درخواست کروںکہ ایک کروڑ روپے کے سرکاری خرچ سے وہاں ٹریک بنوادیں، تو حکومت کس قانون کے تحت ایک کروڑ روپے خرچ کرکے وہاں ٹریک بنوا کر دے گی؟‘‘ 

اس سوال کا جواب جج صاحب نہ دے سکے۔ پھر کچھ توقف کے بعد میں نے کہا کہ ’’ذاتی زمین پر سڑک کی تعمیر کے لیے حکومت کے ایک کروڑ روپے غیر قانونی طور پر خرچ کیے گئے ہیں، لہٰذا شوگر مل کے مالک سے یہ رقم ڈی سی او، سرگودھا وصول کرنے کا پابند ہے۔‘‘ میرے فیصلے کی فائل حج صاحب کے ہاتھ میں تھی۔ پہلے تو وہ بڑے فاتحانہ انداز میں میرے فیصلے کو پڑھ رہے تھے کہ مَیں نے کوئی بہت بڑا جرم یا غیرقانونی کام کردیا ہے۔ مگر میری وضاحت کے بعد تو جیسے سکوت طاری ہوگیا۔

پھر صوبائی محتسب نے فیصلے کی فائل حج صاحب سے لے لی تو مَیں نے صوبائی محتسب کو حتمی انداز میں بتادیا کہ’’ مَیں نے پٹواری کا ریکارڈ اور ’’لٹھا پارچہ‘‘ دیکھنے کے بعد اپنے ضمیر کے مطابق درست فیصلہ کیا ہے۔ متعلقہ زمین، جس پر سرکاری فنڈ سے سڑک تعمیر ہوئی، وہ شوگر مل کی ذاتی ملکیت ہے۔‘‘

واضح رہے کہ لٹھا پارچہ سے مراد سفید کپڑے کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے، جس پر پٹواری رقبےکی ملکیت کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس دستاویز کو سپریم کورٹ بھی تسلیم کرتی ہے اور یہ لٹھا ریونیو ریکارڈ کا اہم حصّہ ہوتا ہے۔ لٹھا پارچہ کا لفظ سُن کر صوبائی محتسب دوبارہ غصّے میں آگئے اور ’’لٹھا بوسکی، لٹھا بوسکی۔‘‘ کی گردان کرنے لگے۔ مجھے اُن کی سوچ اور قابلیت پر حیرت ہوئی اور سوچنے لگا کہ یہ تو لٹھے اور بوسکی کے فرق سے بھی نابلد ہیں۔ بہرحال، مَیں نے صوبائی محتسب سے کہا کہ ’’مجھے امیدِ واثق ہے کہ میرا فیصلہ اگر سپریم کورٹ میں چیلنج بھی ہوا، تو اِن شاء اللہ قانون کے مطابق میرا موقف ہی درست تسلیم کیا جائے گا۔‘‘ 

صوبائی محتسب میری اس بات پر مزید ناراض ہوگئے اور فرمانے لگے۔ ’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ سپریم کورٹ بھی آپ کے فیصلے کو قانون کے مطابق قرار دے گی اور آپ ہی کا فیصلہ درست مانے گی۔‘‘ صوبائی محتسب کے اس انداز پر مجھے بھی غصّہ آگیا۔ مَیں نے اُنھیں ایک اور مثال دی کہ مَیں نے 1973ء میں شفعہ کے ایک مقدمے کا فیصلہ بطور سول حج، سیال کوٹ کیا، تو سیشن جج نے مجھے بلا کر سرزنش کی کہ آپ نے فیصلہ غلط کیا ہے۔ مَیں نے عرض کیا کہ میرا فیصلہ درست ہے اور قانون کے مطابق ہے، تو سیشن جج غصّے میں آگئے اورفوراً ہی کہہ دیا کہ ’’آپ توہین ِعدالت کے مرتکب ہورہے ہیں۔‘‘ 

میں نے بھی انھیں ترکی بہ ترکی جواب دے دیا کہ ’’آپ بھی تو ہین ِعدالت کے مرتکب ہورہے ہیں، مَیں بھی عدالت ہوں۔آپ میرے فیصلے کو اپیل میں سماعت کے بعد غیر قانونی قرار دے سکتے ہیں، مجھے اپنے پاس بلا کر بُرا بھلا نہیں کہہ سکتے۔‘‘ لیکن اس کے باوجود سیشن جج نے میرے خلاف فیصلہ سُنادیا۔ ہائی کورٹ نے بھی میرے فیصلے کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ تاہم، کچھ عرصے بعد بالآخرسپریم کورٹ آف پاکستان کے فاضل بینچ نے میرے مذکورہ فیصلے کو قانون کے عین مطابق قرار دے دیا۔‘‘

میری بات بغور سننے کے بعد صوبائی محتسب نے فیصلہ دوبارہ پڑھا، متعلقہ رولز بھی ملاحظہ کیے اور کہا کہ ’’نیازی صاحب کا فیصلہ غلط نہیں ہے۔‘‘ پھر انھوں نے فائل دوبارہ حج صاحب کو دیتے ہوئے کہا کہ ’’آپ یہ فائل سرگودھا ڈاک کے ذریعے نیازی صاحب کو بھجوادیں تاکہ وہ اس فیصلے پر دوبارہ غور کریں۔‘‘ صوبائی محتسب کے قائل ہونے کے بعد میں نے تفصیل سے انھیں پورا واقعہ بتایا کہ ’’جب مَیں متعلقہ شوگر مل دیکھنے گیا، تو وہاں سٹرس فروٹ (کِنوّؤں) کا ایک پلانٹ بھی دیکھا، جس میں مالٹوں اور کِنوّؤں سے گودا تیار ہوتا ہے اور یہ گودا ڈرمز کے ذریعے شراب تیار کرنے والی فیکٹریز کو بھیجا جاتا ہے، لہٰذا مَیں نے موقعے پر موجود شوگرمل کے جنرل منیجر سے کہا کہ ’’آپ سِٹرس کا پلانٹ کھلوائیں، مَیں دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ 

جنرل منیجر میری بات پر گھبراگیا اور اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کردیا،کہنے لگا۔ ’’چابیاں چوکیدار کے پاس ہے اور وہ آج نہیں آیا۔‘‘ظاہر ہے، اُن کے حیلے بہانوں پر ہم کیا کرسکتے تھے، لہٰذا واپس چلے آئے۔ پھر میں نے صوبائی محتسب کو بتایا کہ ’’شوگر مل والے تو ایکسائز ڈیوٹی کے بھی چور ہیں۔ اگر حساب لگایا جائے، تو اُن کے ذمّے کروڑوں روپے کی ایکسائز ڈیوٹی بھی واجب الادا ہوگی۔‘‘ صوبائی محتسب کہنے لگے۔’’نیازی صاحب! آپ اِن شوگر مل والوں کے خلاف ایکسائز ڈیوٹی کی چوری کی بھی انکوائری کر کے کیس بنائیں۔‘‘

اس کے بعد مَیں اور جج صاحب، صوبائی محتسب سے اجازت لے کر باہر آگئے، باہر آکر جج صاحب کوالوداع کہا اور سرگودھا پہنچتے ہی اپنا استعفیٰ صوبائی محتسب کو فیکس کیا اور اپنا سامان اٹھا کر سرگودھا سے لاہور منتقل ہوگیا۔ مجھے اطمینان ہے کہ مَیں نے شوگرمل کیس کا فیصلہ اپنی ضمیر کے مطابق ایمان داری سے دیااور اِسے توثیق کے لیے صوبائی محتسب کو بھیجا کہ محض اپنی کرسی بچانے کے لیے مصلحت کے تحت کوئی فیصلہ کرنا میرے ضمیر کے خلاف تھا۔ مَیں کسی سیاسی شخصیت سے ڈرنے والا نہیں تھا۔ میں صرف اپنے ربّ سے ڈرتا ہوں کہ حدیثِ پاکؐ میں آتا ہے۔ ’’بہترین دانائی اللہ کا خوف ہے۔‘‘ (ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی، بہاول پور ہاؤس، نزید مزنگ، لاہور)

سنڈے میگزین سے مزید