عشرت جہاں، لاہور
احسان صاحب مزاج کے ذرا کھردرے واقع ہوئے تھے۔ یاروں، دوستوں کی معیت میں تو پھر بھی مسکراہٹ کے شگوفے کھلاتے رہتے، لیکن اپنے اور گھر والوں کے درمیان ایک حد قائم کر رکھی تھی، جسے عبور کرنے کی اجازت کسی کو نہ تھی اور سب ہی نے ان کے مزاج کو سمجھتے ہوئے گویا اُنھیں اُن کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔
بیٹے بڑے ہوئے تو انھوں نے اپنی اپنی راہ لی۔ اب احسان صاحب کا ماتھا ٹھنکا، جب کہ ریٹائرمنٹ بھی قریب تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ تو اُنہیں آزادی کا احساس تھپکتا رہا، لیکن جلد ہی احساسِ تنہائی غالب آنے لگا۔ اب نہ کوئی ان کے قریب آنا چاہتا تھا اور نہ ہی وہ اپنی قائم کردہ حدِ فاصل عبور کرنا چاہتے تھے۔ سو، مزید اپنے خول میں سمٹنے لگے۔
بڑے بیٹے یوسف کے رشتے کے لیے انھوں نے بڑی تگ ودو کی ۔ آخر کار، ان کی پسند کے مطابق رشتے طے ہوگیا، تو سادگی کے ساتھ بیٹے کا نکاح کردیا۔ رخصتی ایک سال بعد طے ہوئی۔ اس عرصے میں یوسف نے عفیفہ کے کاغذات تیار کروانے تھے تاکہ وہ اُسے اپنے ساتھ لے جاسکے، جب کہ فریحہ کو بیٹی کی صُورت ایک ہم نوا مل گئی، اس لیے وہ تو بہت خوش تھیں۔
فریحہ کا اتوار کا پورا دن بے حد مصروفیت میں گزرا، کیوں کہ آج عفیفہ اپنے والدین کے ساتھ اُن کے گھر آرہی تھی۔ انھوں نے خوب اہتمام کیا۔ اُن کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اُس کی پسند کے ہر قسم کے کھانے بنائیں اور شوق سے اُسے کھلائیں۔ ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ اور آنکھوں میں عفیفہ کا چہرہ گھوم رہا تھا۔ نکاح کے بعد وہ پہلی بار گھر آرہی تھی اور وہ بھی ایک سرپرائز کے ساتھ۔
آج احسان صاحب کی سال گرہ تھی اور اس نے اپنی ساس کے ساتھ مل کر یہ سارا پروگرام ترتیب دیا تھا، جب کہ اُنھیں منع بھی کردیا تھا کہ وہ احسان صاحب کو کچھ نہ بتائیں۔ ’’ہم اُنھیں سرپرائز دیں گے ماما!!‘‘ اُس کی بے ریا باتیں سُن کر فریحہ ہنس دیتی تھیں کہ اُن کی اپنی تو کوئی بیٹی تھی نہیں، جس کی پیاری باتوں اور شرارتوں سے وہ محظوظ ہوتیں۔
عشاء کی نماز پڑھ کر احسان صاحب گھر آگئے اور اب اپنے کمرے میں بیٹھے کھانے کے منتظر تھے، لیکن فریحہ نے اب تک اُنھیں کھانے کا نہیں کہا تھا۔ وہ وقت گذاری کے لیے اپنے موبائل میں مصروف ہوگئے۔ ادھر فریحہ نے عفیفہ کو کال ملائی۔ ’’آجاؤ بھئی، تمہارے پاپا آگئے ہیں۔ ایسا نہ ہو ، کھانے کا انتظار کرتے کرتے سوجائیں۔‘‘ ’’جی ماما! بس گھر سے نکلنے لگے ہیں۔‘‘ عفیفہ نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔
فریحہ نے کال کاٹ کر پتیلے کا ڈھکن احتیاط سے ہٹایا ۔ بریانی دَم پر تھی۔ دوسرے چولھے پر وہ کباب تلنے لگیں، 20 منٹ بعد ڈور بیل کے ساتھ ان کے موبائل پر بھی بیل ہونے لگی۔ انھوں نے سامان ایک طرف رکھا، اور چھوٹے بیٹے نوید کو مہمانوں کا خوش دلی سے استقبال کرنے کی ہدایت دیتی مین گیٹ کی جانب چل دیں۔ جوں ہی دروزہ کھلا، عفیفہ ہنستی مسکراتی چمکتے چہرے کے ساتھ اندر داخل ہوئی۔ نگہت بیگم اور اکرام صاحب اس کے پیچھے تھے۔ سلام کے بعد وہ بے تابی سے بولی۔ ’’پاپا کہاں ہیں ماما؟‘‘ ’’اپنے کمرے میں ہیں۔‘‘ فریحہ نے اُن کی راہ نمائی کی۔
ہیپی برتھ ڈے ٹو یوپاپا…‘‘کمرے میں داخل ہوتے ہی عفیفہ ایک ردھم میں بولی۔ اس کی آواز میں چڑیوں کی سی چہکارہی تھی۔ احسان صاحب حیران سے کھڑے تھے۔ اُنھیں تو کانوں کان خبر نہ ہوئی تھی، اُن کے آنے کی۔ ’’سرپرائز پاپا !!‘‘ عفیفہ نے کیک میز پر رکھا۔ احسان صاحب نے اس کے سرپر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا۔ ’’مجھے تو یاد ہی نہ تھا کہ آج میری پیدائش کا دن ہے۔‘‘ وہ خوش دلی سے بولے۔’’دیکھ لیں احسان صاحب! یہ ہوتی ہیں بیٹیاں،‘‘ اکرام صاحب نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’جی جی، بالکل ٹھیک کہا آپ نے۔‘‘ ’’ماما! پہلے کیک کاٹ لیں، پھر کھانا کھائیں گے۔‘‘ عفیفہ بولی۔ اور کیک سیٹ کرنے لگی۔ کینڈل جلا کر اس نے چُھری احسان صاحب کے ہاتھ میں تھمادی۔ سب نے باری باری اُنھیں وِش کیا۔ احسان صاحب کے چہرے پر سُرخی بھری مسکراہٹ تھی۔
وہ بہت مسرور نظر آرہے تھے۔ عفیفہ نے کیک کا ٹکڑا احسان صاحب کو کھلایا، پھر بقیہ ٹکڑا فریحہ کے منہ میں ڈال دیا۔ اب نگہت بیگم نے فریحہ کو اشارہ کیا۔ ’’ماما کھلائیں ناں ، پاپا کو وِش کریں۔‘‘ عفیفہ بھی بولیں۔ فریحہ بیگم اس صورتِ حال پر گھبرا سی گئیں۔ انھوں نے احسان صاحب کی طرف دیکھا۔ وہ بغلیں جھانک رہے تھے۔ ’’مَیں کھانا لگادوں، ٹھنڈا ہوجائے گا۔‘‘ وہ بولیں۔’’ماما! آپ کو شرم آرہی ہے؟‘‘ عفیفہ شوخی سے بولی۔
آخر سب کے اصرار پر فریحہ کو کیک کھلانا ہی پڑا۔ اس کے بعد نوید کی باری تھی، وہ بھی پزل سا تھا۔ وہ اپنے پاپا کی بے تکلفی پر دل ہی دل میں حیران سا ہو رہا تھا۔ ’’ یہ بھابھی ہی ہیں، جنہوں نے ہمیں ایک نئی خوشی سے متعارف کروایا۔‘‘ سوچتے ہوئے وہ عفیفہ کا شکر گزار ہو رہا تھا۔
سب نے بہت اچّھے ماحول میں کھانا کھایا۔ جاتے وقت نگہت بیگم نے فریحہ کا ہاتھ پکڑا اور بولیں۔ ’’محبّت اظہار مانگتی ہے بہن! یقینا ہم سب ہی کو اپنے ماں باپ سے، بہن بھائیوں سے بچّوں اور شوہر سے محبّت ہوتی ہے، لیکن نہ جانے کیوں، ہم اظہار میں جھجھکتے ہیں، ہمیشہ کنجوسی کرتے ہیں، جب کہ محبّت تو نام ہی اظہار کا ہے۔‘‘ اور فریحہ سوچ رہی تھیں کہ نگہت بیگم ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں۔
محبّت اظہار مانگتی ہے، جب کہ ہم لوگ کبھی شرم وحیا کے پردے میں اور کبھی تقدیس و احترام کے ہالے میں مقیّد رہتے اظہار نہیں کرپاتے۔ ہم یہ بھی تو کہہ سکتے ہیں، ہمیں اللہ کے لیے آپ سے محبّت ہے۔‘‘ عفیفہ کے لیے اُن کے دِل سے دُعائیں نکل رہی تھیں، جس کے دَم سے اُن کے گھر میں بہاریں اُترآئی تھیں۔