انٹیلی جنس اداروں کی نشاندہی پر انسانی اسمگلنگ کا بین الاقوامی نیٹ ورک رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے۔ اس نیٹ ورک کوچلانے والے بھارتی ایجنٹ مختلف ممالک سے اس نیٹ ورک کو چلاتے تھے۔ان مجرمانہ سرگرمیوں میںبعض افغان باشندے بھی ملوث تھے۔پیسہ کمانے کے علاوہ ان سرگرمیوںکا مقصد بین الاقوامی طور پر پاکستان کو بدنام کرنا تھا۔ اس مقصد کیلئے یہ گروہ بھارتی اور افغان باشندوں کیلئے جعلی پاکستانی ویزے اور پاسپورٹ بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ خفیہ ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بڑی مہارت اور محنت کے ساتھ بروقت اقدام کے ذریعے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کا ثبوت دیا ہے اس کے ساتھ ساتھ ایک منظم طریقے سے پاکستان کی ساکھ کو محفوظ اور برقرار رکھا ہے۔ جس پر خفیہ ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے تحسین کے لائق ہیں۔ بلاشبہ یہ انٹیلی جنس اداروں کی بہت بڑی کامیابی ہے جنہوں نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہونے اور پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کرنے کا شرمناک منصوبہ بروقت ناکام بنا کر اس گروہ کو بے نقاب کیا اور اس مذموم دھندے میں ملوث افراد قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی گرفت میں آئے۔
انسانی اسمگلروں کا یہ بین الاقوامی نیٹ ورک سادہ لوح عوام کو بیرون ملک روزگار کے جھانسے دے کر لوٹنے میں ملوث تھا۔ اس گروہ نے 350سے زائدافراد کو بیرون ملک کام دلانے کا جھانسا دے کر لوٹا ہے۔ ان وارداتوں میں یونانی سفارتخانے کا ایک ملازم بھی ملوث ہے جس کانام طارق رفیق بتایا گیا ہے۔ اس کےعلاوہ غلام مرتضیٰ اور جاوید انجم نامی دوافراد کو بھی رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا ہے۔ جعلی ویزے بنانے کیلئے اس گروہ نے اپنا پرنٹنگ پریس بھی لگارکھا تھا جہاں جعلی ویزا اسٹیکرز اور کئی ملکوں کے جعلی پاسپورٹ بھی تیار کرتے تھے۔ علاوہ ازیں جعلی ویزوں کیلئے ضروری دستاویزات بھی جعلی طور پر بنائی جاتی تھیں تاکہ سادہ لوح لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے اطمینان دلا سکیں۔ ان دستاویزات میں جعلی تعلیمی اسناد، ڈرائیونگ لائسنس اور متعلقہ ملک کا جعلی رہائشی پرمٹ وغیرہ شامل ہیں۔ جعل سازی کے یہ ماہربینک اسٹیٹمنٹ اور وزارتی سفارشات بھی جعلی طریقہ سے اس پرنٹنگ پریس میں تیار کرتے تھے۔ اس گروہ نے مختلف اقسام کی مہریں بھی بنا رکھی تھیں جن کو یہ لوگ غیر قانونی دستاویزات بنانے میں استعمال کرتے تھے۔ آخری تفتیشی اطلاعات کے بارے میں ذرائع نے بتایا کہ یہ گروہ ان جعلی دستاویزات کے ذریعے 78ملین سے زائد لوٹ چکا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یونانی سفارتخانے کے ملازم طارق رفیق نے یونان کےویزا اسٹیکر ان لوگوں کو فراہم کئے تھے۔
جعلسازوں کے اس گروہ کے بارے میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ یہ لوگ پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے مذہبی بنیادوں پر ظلم وستم کی جعلی گواہیاں بھی کاغذات کی صورت میں اسی پرنٹنگ پریس میں تیار کرتے تھے اور مختلف ممالک میں سیاسی پناہ لینے والے بعض افراد بھی اس گروہ سے معاونت لیتے رہے ہیں۔ دوران تفتیش اس نیٹ ورک کے انٹر نیشنل ڈنکی گروہوں کیساتھ روابط کابھی انکشاف ہوا ہے۔ انسانی اسمگلروں کا یہ نیٹ ورک کیش ہینڈلنگ کے علاوہ کرپٹو کرنسی میں بھی لین دین کرتا تھا۔ اس گروہ کے بارے میں تفتیش کا دائرہ وسیع کردیا گیا ہے مزید گرفتاریوں کیلئے کوششیں جاری ہیں اور مزید سنسنی خیز انکشافات سامنے آنے کی توقع ہے۔
ان تمام تفصیلات کو قارئین کے سامنے پیش کرنے کا مقصد آگاہ کرنا ہےکہ بھارت کن طریقوں سے پاکستان کو بین الاقوامی طور پر بدنام کرنے کی کوششیں کرتا ہے جس میں اس کو بعض افغان باشندوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ یہ لوگ اس فراڈ کے ذریعے ایک طرف پاکستان کے سادہ لوح شہریوں کو لوٹتے ہیں اور دوسری طرف پاکستان کو بدنام بھی کرتے ہیں۔ خفیہ اداروں کی ٹھوس اور مکمل معلومات کی بنیاد پر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی معاونت سے اس کارروائی کے نتیجے میں کئی پاکستانی اپنا سرمایہ اور عزت ووقار کھونے سے بچ گئے۔ یہ کارروائی انٹیلی جنس اداروں کی پیشہ ورانہ مہارت اور سخت محنت کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ انسانی اسمگلنگ کیخلاف جنگ میں یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بڑی اہم کامیابی اور فتح ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک منتقلی کے مضمرات اجاگر کرنے کیلئے عوامی بیداری وآگاہی پر مبنی باقاعدہ مہم چلائے۔ اس بین الاقوامی جعل ساز نیٹ ورک کے خلاف کریک ڈاؤن پاکستانی اداروں پر بین الاقوامی اعتماد کو تقویت دینے کا باعث بنے گا۔ بھارتی اور افغان باشندوںکیلئے پاکستانی پاسپورٹ بنانا پاکستان کے خلاف منظم سازش تھی جس کو خفیہ اداروں نے بروقت بے نقاب کر کے ناکام بنا دیا۔ بلاشبہ قابل فخر پاکستانی ادارے لائق تحسین ہیں۔