• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان کی طوفانی بارشیں، مُلکی سیاسی طوفان میں گُم

بلوچستان معدنیات کی دولت سے مالا مال صوبہ ہے اور معاشی و اقتصادی طور پر’’ وسط ایشیا کا حب‘‘ کہلاتا ہے۔نیز، یہ تاریخی و ثقافتی اعتبار سے دو برادر ہم سایہ ممالک کے سنگم پر واقع ہے، لیکن اِس قدر اہمیت کا حامل ہونے کے باوجود، ایک عرصے سے عدم توجّہی کا شکار ہے۔ قومی شاہ راہوں کو دو رویہ کرنے، ڈیمز کی تعمیر، گیس، بجلی کی لوڈشیڈنگ، قبضہ مافیا کے خلاف کارروائی اور امن وامان کی صُورتِ حال میں بہتری کے عوامی مطالبات سے رُوگردانی کے سبب مختلف پیچیدگیاں بھی پیدا ہو رہی ہیں۔

ایک طرف روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے حادثات ہیں، تو دوسری طرف عوام کو قدرتی آفات کا سامنا ہے، جن سے بچائو کی کوئی سبیل نظر نہیں آ رہی، پھر باقی کسر خشک سالی، بے روزگاری اور مصنوعی منہگائی نے پوری کر دی ہے۔ امسال ماہرین نے یکم جولائی سے مون سون کی شدید بارشوں کی پیش گوئی کی تھی، مگر متعلقہ اداروں کی نااہلی کے سبب تباہی و بربادی بلوچستان کے عوام کا مقدّر رہی۔

صوبائی ڈیزاسٹرمینجمنٹ سیل کے اعداد وشمار کے مطابق، 6ستمبر تک صوبے میں طوفانِ بادوباراں اور سیلابی ریلوں کی وجہ سے چالیس افراد جاں بحق ہوئے، جن میں24 بچّے، 13مرد اور 3خواتین شامل ہیں،جب کہ 19افراد کے زخمی ہونے کی رپورٹ ہے۔ 

سیلاب سے مجموعی طور پر 168041افراد متاثر ہوئے، 1591مکانات مکمل طور پر منہدم، جب کہ 1579 مکانات کو جزوی نقصان پہنچا۔ سیلاب سے 59719 ایکڑ پر کھڑی فصلیں ڈوب گئیں اور 179کلو میٹر سڑکیں بُری طرح متاثر ہوئیں۔ اِس کے علاوہ 7پُلوں کو نقصان پہنچا، جس سے لوگ متاثرہ علاقوں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ علاوہ ازیں،593مویشی بھی ہلاک ہوئے۔ یہ تو تھے سرکاری اعدادوشمار، جب کہ حقیقی صُورتِ حال یوں مختلف ہے کہ صوبے کے بعض علاقوں تک کسی کی رسائی ہی نہیں ہے۔ انٹرنیٹ سروسز کی عدم دست یابی ایک الگ مسئلہ ہے۔

31اگست کو کوئٹہ، مکران، جیوانی، پسنی، اورماڑہ، گوادر، تربت، لسبیلہ، آواران، خضدار، قلّات، خاران، نصیر آباد، بارکھان، مسلم باغ، زیارت اور جعفر آباد میں شدید بارشیں ہوئیں۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق، اُس روز زیارت میں 39، قلّات میں 32، خضدار میں 30، مسلم باغ میں20،لورالائی میں 17،سبّی میں11 اور کوئٹہ میں 9ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ مچھ کے مکینوں نے 5اگست کو حفاظتی بند کے حوالے سے بولان قومی شاہ راہ پر دھرنا دیا، مگر کسی ادارے نے اُن کے احتجاج یا مطالبات کو درخور اعتنا نہ سمجھا اور پھر سیلابی ریلے نے علاقے میں بدترین تباہی مچا دی۔ بند نہ باندھنے کی وجہ سے درجنوں مکانات منہدم ہوئے۔ 

گرین بیلٹ کے اضلاع صحبت پور، جعفر آباد، نصیر آباد، اوستا محمّد، جھل مگسی، سبّی اور کچھی کے مکینوں کو گزشتہ برسوں کی طرح ایک مرتبہ پھر تباہی سے دوچار ہونا پڑا۔ چاول کی تیار فصل بڑے پیمانے پر تباہ ہوئی۔ محکمہ ایری گیشن کی اطلاعات کے مطابق، بولان ناڑی ندی سے 84 ہزار کیوسک سیلابی پانی کا گزر ہوا، اِس دوران سندھ کا بلوچستان سے رابطہ منقطع رہا۔ دونوں جانب ہزاروں گاڑیاں ٹریفک میں پھنسی رہیں۔ ضلع لسبیلہ میں لاکھڑا کے کئی دیہات بھی پانی میں ڈوب گئے اور درجنوں مکانات کی دیواریں گرگئیں، جب کہ کپاس کی کھڑی فصلوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ 

دو سال قبل کراچی کو کوئٹہ سے ملانے والے منہدم پُل کی بھی ابھی تک مرمت نہیں ہوسکی، جس کی وجہ سے اِس مرتبہ کی بارشوں میں عارضی متبادل راستہ بھی پانی سے بَھر گیا اور کسی دریا کا منظر پیش کرتا رہا، جس کی وجہ سے دونوں جانب رابطے معطّل رہے۔ شدید بارشوں سے حب ڈیم میں پانی کی سطح338 فٹ سے تجاوز کر گئی، جب کہ ڈیم میں339فٹ پانی کی گنجائش ہے۔

قلعہ عبداللہ، چمن، ہرنائی، ژوب، شیرانی، موسیٰ خیل، پشین اور لورالائی سمیت کئی نشیبی علاقوں میں سیلابی پانی گھروں میں داخل ہوگیا۔متاثرہ علاقوں میں مواصلاتی نظام درہم برہم رہا، ٹرین سروس معطّل ہوئی، اشیائے خورو نوش کی قلّت سے پہلے سے موجود منہگائی نے گراں فروشی کے نئے ریکارڈ قائم کیے، جب کہ اِن علاقوں کا لینڈ سلائیڈنگ کے سبب دیگر علاقوں سے رابطہ بھی منقطع رہا۔ تاریخی ریلوے سرنگ، شیلاباغ، سیلابی ریلوں کے ساتھ بہہ کر آنے والی مٹّی سے بَھر گئی۔کوئٹہ، چمن ٹرین معطّل رہی، تو کئی علاقوں میں ٹیوب ویلز اور سولر سسٹم کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا۔

اِسی دوران قلعہ عبداللہ میں ایک ایسا واقعہ بھی پیش آیا، جس نے انسان دوستی کی نئی، درخشاں اور قابلِ تقلید مثال قائم کی۔ نوجوان ایکسویٹر ڈرائیور، محب اللہ نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر، سیلابی ریلے میں پھنسے کار سوار افراد کی جان بچائی۔ 

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان، میر سرفراز بگٹی نے انسانیت کی اس خدمت اور اِس بہادری کے مظاہرے پر نوجوان محب اللہ کو کیش ایوارڈ سے نوازنے کے ساتھ، پی ڈی ایم اے میں ڈرائیور کی ملازمت دینے کا بھی اعلان کیا، جب کہ کور کمانڈر کوئٹہ، لیفٹیننٹ جنرل، راحت نسیم خان نے بھی اُس سے ملاقات کر کے پانچ لاکھ روپے انعام دیا۔ 

بعدازاں، محب اللہ نے وزیرِ اعظم ہائوس اسلام آباد میں وزیرِ اعظم، میاں شہباز شریف سے ملاقات کی، جس کے دوران وزیرِ اعظم نے اُسے 25لاکھ روپے بطور انعام دینے کے ساتھ، اُس کے بچّوں کے لیے یونی ورسٹی تک مفت تعلیم کا اعلان کیا۔جہاں عوام نے اِس کارنامے پر محب اللہ کو دل کھول کر سراہا، وہیں متعلقہ محکموں کے تن خواہ دار ملازمین کی کارکردگی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ اُس وقت کہاں غائب تھے،جب لوگوں کو اُن کی مدد کی ضرورت تھی۔

گزشتہ برس سریاب روڈ کی تعمیرِ نو کا کام مکمل کیا گیا تھا، لیکن حالیہ بارشوں میں یہ سڑک دریا بنی رہی، جس پر عوام کی جانب سے سوشل میڈیا پر متعلقہ محکمے اور انجینئرز کو ایوارڈ دینے سے متعلق طنزیہ و دل چسپ جملے گردش کرتے رہے۔ اور ساتھ ہی عوام نے 2022ء کے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ نہ ہونے کی بھی شکایات کیں۔اُنھوں نے اپنی پوسٹس میں ڈیمز پر جاری کام ادھورے چھوڑنے پر بھی طرح طرح کے سوالات اُٹھائے۔

عوام پر ایک ستم یہ بھی ہوا کہ کوئٹہ اور کئی دیگر اضلاع کو گیس کی فراہمی کے لیے بچھائے گئے18قطر پائپ لائن کو بولان کے مقام پر سیلابی ریلا بہا لے گیا، جس سے سوئی گیس کی فراہمی میں تعطّل آیا اور عوام ہاتھوں میں گیس سلینڈرز اُٹھائے اِدھر اُدھر دوڑتے رہے اور گھنٹوں قطار میں لگنے کے بعد بھی وہ دُگنی قیمت پر سیلنڈرز بَھروانے پر مجبور ہوئے۔بلوچستان کا کئی روز تک دیگر صوبوں سے رابطہ منقطع رہا، جس سے اشیائے خور ونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔

بارشوں سے تباہ کاریوں کے ضمن میں ایک اہم پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ مُلک کے باقی صوبوں میں تو بلدیاتی انتخابات ہوچُکے ہیں، مگر کوئٹہ میں ابھی تک بلدیاتی حکومتیں قائم نہیں ہوسکیں، جس کے سبب نچلی سطح پر عوام کے مسائل حل نہیں ہو پا رہے۔ حال ہی میں کوئٹہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن نے کوئٹہ شہر کو پرائیویٹ/ پبلک پارٹنر شپ کے حوالے کیا ہے، مگر اِس نئے انتظام کے بعد بھی اُبلتے گٹر، گندگی سے بَھرے نالے اور جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر جہاں’’ لٹل پیرس‘‘کے چہرے پر بدنُما داغ ہیں، وہیں یہ متعلقہ اداروں کا بھی منہ چڑا رہے ہیں۔ 

صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن ارکان نے متاثرین کو ریلیف کے نام پر دو، چار کلو آٹا، چینی، چاول اور دالیں دینے کے عمل کو انتہائی غیرمناسب رویّہ قرار دیا، جب کہ اراکین نے توجّہ دلائو نوٹس پر واک آئوٹ بھی کیا۔ بعض عوامی نمائندوں نے پی ڈی ایم کو سالانہ پانچ ارب روپے ملنے پر سوالات اُٹھاتے ہوئے ناقص کارکردگی پر فوری نوٹس لینے کا بھی مطالبہ کیا۔ ارکانِ اسمبلی نے پورے صوبے کو آفت زدہ قرار دینے کا بھی مطالبہ کیا۔ اِس موقعے پرضلع آواران میں زلزلے کو دس سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود، متاثرین کے نقصانات کا ازالہ نہ ہونے کی بھی یاد دہانی کروائی گئی۔

علاقائی موسمیاتی مرکز بلوچستان نے ایک موقعے پر ساحلی پٹی جیوانی، گوادر، پسنی اور اورماڑہ کے ملحقہ علاقوں میں گرج چمک کے ساتھ 50سے 60کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آندھی کی پیش گوئی ظاہر کی تھی، مگر اللہ نے کرم کیا کہ یہاں پہنچتے پہنچتے سمندری طوفان کم زور پڑگیا۔ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مطابق دیمی زر، پدری زر، پشکان اور سربندر کے مقامات پر جدید بریک واٹر تعمیر کیے گئے ہیں، جن کی وجہ سے اب سمندری طوفان اور تیز ہوائوں کے دَوران ہزاروں کشتیاں ان بریک واٹرز پرمحفوظ رہ سکتی ہیں۔ اِس وقت تک کی اطلاعات کے مطابق، حکومت کی جانب سے جھل مگسی اور اوستا محمّد کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے،حالاں کہ کئی دیگر اضلاع میں بھی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ ہر طرف سے انفرا اسٹرکچر تباہ ہونے کی خبریں آ رہی ہیں۔ 

عوام پہلے ہی سے انفرا اسٹرکچر بہتر بنانے کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں اور اگر ناکافی انفرااسٹرکچر بھی تباہ ہوچکا ہو، تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عوامی مشکلات میں کس قدر اضافہ ہوا ہوگا۔ مختلف فورمز پر ترقیاتی منصوبوں میں بدعنوانیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ ہوتا رہا ہے، مگر کسی بھی سطح پر روک تھام کی کوششیں نہیں ہو رہیں۔ تعمیراتی منصوبوں میں نکاسیٔ آب، پارکنگ، سڑکوں کی تنگی اور آبادی کے دباؤ سے صرفِ نظر کرنے کے باعث عوام کو بار بار سیلابی صُورتِ حال سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے، جب کہ قومی خزانے کو الگ نقصان پہنچ رہا ہے۔ افسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ قومی اور صوبائی سطح پر اِس وقت بھی سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر کوئی بات نہیں ہورہی اور نہ ہی آئندہ کے کسی لائحہ عمل پر ٹھوس بنیادوں پر کام کی منصوبہ بندی نظر آرہی ہے۔ بعض سیاسی معاملات کی وجہ سے عوام کو بے یارومددگار چھو ڑ دیا گیا ہے۔ 

دوسری جانب، ایک حکومتی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں پچاس فی صد انتظامی افسران کی کمی ہے۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سرکاری محکموں میں کام کی رفتار کیا اور کسی قدر تسلّی بخش ہوگی۔حالیہ بارشوں سے کوئٹہ، تفتان سڑکوں اور ریل کی پٹریوں کو بھی نقصان پہنچا، جب کہ بولان میں اِس دوران ایک پُل کو دھماکے سے اُڑا دیا گیا، جس کے سبب کوئٹہ، تفتان ایرانی سرحد اور کوئٹہ، چمن افغانستان سرحد تک ریل سروس معطّل ہوگئی۔

ماہرین جدید ٹیکنالوجی کے طفیل موسمیاتی تبدیلی سے درپیش مسائل سے متعلق مسلسل آگاہ کرتے رہتے ہیں، لیکن مجال ہے، جو اربابِ اختیار اور دیگر ذمّے داران حفظِ ماتقّدم کے طور پر اپنی ذمّے داریاں پوری کریں۔وہ تھریٹ الرٹ جاری کرکے خود کو بری الذّمہ قرار دے دیتے ہیں، حالاں کہ اُن کا تو کام تھا کہ وہ سیلابی نالوں کی صفائی کرواتے، جہاں ضرورت ہوتی، وہاں حفاظتی بند تعمیر کرواتے، قومی اثاثے، تنصیبات محفوظ بنائی جاتیں، تعمیراتی کاموں کے ملبے سڑکوں سے ہٹوائے جاتے، ڈیمز تعمیر کیے جاتے، پی ڈی ایم اے کو متحرّک رکھا جاتا اور ناکارہ مشینریز کو قابلِ استعمال بنایا جاتا، مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ بس، صرف اسپتالوں میں ایمرجینسی نافذ کرنا ہی سب سے بڑی ذمّے داری سمجھ لی جاتی ہے، آگے عوام جانیں اور سیلابی ریلے۔

زلزلوں کی طرح سیلابی ریلوں کے بھی آفٹر شاکس ہوتے ہیں۔ وہ اِس طرح کہ شدید بارشوں سے کچّے مکانات کی چھتیں، بنیادیں کم زور ہوجاتی ہیں اور اگلے دنوں میں اِن کے گرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے، جس سے جانی نقصان کے بھی خدشات منڈلاتے رہتے ہیں۔ اِن دنوں بلوچستان میں یہی صُورتِ حال ہے، روز دِل دہلا دینے والی خبریں سامنے آ رہی ہیں، جب کہ دُور دراز آبادیوں میں بارشوں اور سیلاب نے کیا تباہی مچائی ہے، اِس کی تفصیلات تو سامنے آنے میں ابھی وقت لگے گا کہ مواصلاتی نظام بُری طرح درہم برہم ہے۔