کشیدگی کے شکار مشرق وسطیٰ خطے سے تشویش ناک خبروں کا سلسلہ جاری ہے، تازہ اطلاعات کے مطابق لبنان میں اسرائیل مخالف مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کیخلاف حملوں میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے، میڈیا کے توسط سے ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ لبنان کے مختلف علاقوں میں تین ہزار جدید پیجرکمیونیکیشن ڈیوائس بیک وقت پراسرارطور پرپھٹ گئی ہیں جس کے نتیجے میں ایک آٹھ سالہ بچی سمیت کم از کم نوافراد جاں بحق جبکہ2800افراد زخمی ہوگئے ہیں،اپنی نوعیت کے پیچیدہ دھماکوں سے زخمی ہونے والوں میں دوسو سے زائد افراد کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے، حزب اللہ سے تعلق رکھنے والے زخمیوں کیلئے دارالحکومت بیروت کے اسپتالوں میں جگہ کم پڑ گئی ہے، مقامی اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے ہائی الرٹ کردیا گیا ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق حالیہ پیجر ڈیوائسز دھماکوں میں بیروت میں ایران کے سفیر مجتبیٰ عمانی بھی زخمی ہوئے ہیں، چند ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ایسے ہی پراسرار پیجر دھماکے ہمسایہ ملک شام میں بھی کیے گئے ہیں۔ حتمی طور پر یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ پیجر ڈیوائسز کو بیک وقت کیسے دھماکے سے اڑایا گیا، تاہم پراسرادھماکوں کا ذمہ دار ا سرائیل کو قرار دیا جارہا ہے، عالمی میڈیا میں قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ حزب اللہ نے اسمارٹ فون کے ذریعے لوکیشن ٹریکنگ ٹیکنالوجی کا کم سے کم استعمال کرنے کیلئے پیجر ڈیوائس بیرون ملک سے آرڈر کی تھیں، یہ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے ان ڈیوائسز میں دھماکہ خیز مواد نصب کردیا تھا جنہیں ایک سیکرٹ کوڈ پیغام بھیج کر بیک وقت دھماکے سے اُڑا دیا گیا، تاہم ڈیوائس تیار کرنے والی کمپنی کے بانی نے واضح طور پر تردیدکردی ہے جسکے بعد یہ معمہ تاحال حل نہیں ہوسکا ہے۔اگر خطے میں جاری کشیدگی کا جائزہ لیا جائے تو ہمیشہ ایسے پراسرار حملوں کے تانے بانےاسرائیل سے ملانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اسرائیل ایسے حملوں کی ذمہ داری قبول کرنا تو دور کی بات، تبصرہ کرنے سے بھی انکار کردیتا ہے، حالیہ واقعے کے بعد بھی اسرائیل کی جانب سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ تاہم اسرائیل کی جانب سے اپنے مخالفین کو خفیہ طور پر نشانہ بنانے کی ایک طویل تاریخ ہے، اس حوالے سے ماضی میں اسرائیل سے منسوب خفیہ کارروائیوں کا جائزہ لیا جائے تو اسرائیل مخالف عناصر کو ختم کرنے کیلئے خودکارڈرون، کار بم دھماکوں، ریموٹ کنٹرول آلات سمیت سائبر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا بے دریغ استعمال کیا گیا، ایرانی دارالحکومت تہران میں حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کوجس پراسرار طورمیں نشانہ بنایا گیا وہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے، اسی طرح تین سال قبل وسطی ایران میں واقع زیرزمین جوہری تنصیبات کو ایک تباہ کن سائبر حملے سے نقصان پہنچایا گیا تھا جسکے بعد بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی تھی ،ایک اور حملے میں ایرانی جوہری سائنسدان محسن فخر زادہ کو تہران میں سفر کے دوران ریموٹ کنٹرول مشین گن کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار ا گیا تھا،اسی طرح 2010ءمیں ایک کمپیوٹر وائرس سٹکسنیٹ نے ایرانی جوہری سینٹری فیوجز میں خلل ڈال کر تباہی مچا دی تھی۔میں سمجھتا ہوں کہ جنگوں اور تصادم کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی تاریخ ہے، انسان زمانہ قدیم سے لیکر آج کے دورِ جدید میں مختلف تنازعات میں ایک دوسرے کے خلاف محاذآرائی کا شکار ہے، تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ ایک پیچیدہ اور مشکل صورتحال کی عکاسی کرتی ہے جس میں کبھی ایک فریق کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے تو کبھی دوسرا فاتح قرار پاتا ہے، ایک زمانہ تھا کہ جنگ آمنے سامنے دوبدلڑی جاتی تھی، جو جنگجو زیادہ بہادری سے تلوار چلاتا، وہ جیت جایا کرتا تھا، پھر جنگوں میں تیراندازی، توپ، بارود اور دور سے مار کرنے والے ہتھیاروں کا استعمال ہونے لگا۔پھر تاریخ میں ایک نیا موڑ آیا اور طاقت کا توازن صحرائے گوبی کے وحشی اجڈ منگولوں کے حق میں ہو گیا جنہوں نےاپنے زمانے کی ترقی یافتہ دنیا کا نقشہ ہی بدل دیا،اس زمانے میںمنگولوں کو خدا کا عذاب قرار دیتے ہوئے یہ مفروضہ قائم کرلیا گیا تھا کہ اب دنیا کا اختتام آگیا ہے۔ تاہم عملی جدوجہد پر یقین محکم رکھنے والوں نے منگولوں کے جنگی حربوں کا باریکی سے جائزہ لیا، اپنی حربی صلاحیتوں کو ازسرنو منظم کیا اور پھر ناقابلِ شکست سمجھے جانے والے منگول پے درپے شکست سے دوچار ہونے لگ گئے۔ اگر ہم جدید تاریخ کا مطالعہ کریں تو گزشتہ صدی میں دو عظیم جنگیں لڑی گئیں، ان جنگوںکے دوران انسان کا خون پانی کی طرح زمین پر بہایا گیالیکن آخرکار فریقین نے جنگ بندی کرتے ہوئے اتفاق کیا کہ جنگیں کسی مسئلے کا حل نہیں اور تنازعات کاپائیدار حل تلاش کرنے کی بہترین جگہ مذاکرات کی میز ہے۔تاریخی طور پر فلسطین کا تنازعہ پہلی جنگ عظیم میں خلافت عثمانیہ کی شکست کے بعدشروع ہوا جبکہ صہیونی ریاست کا باضابطہ قیام دوسری جنگ عظیم کے بعد عمل میں آیا۔ آج اسرائیل مغربی قوتوں کی شہ پر جدید ٹیکنالوجی کے اعتبارسے نہتے فلسطینیوں اور اپنے عرب پڑوسیوں سے بہت آگے ہے، تاہم گزشتہ سال آٹھ اکتوبر کے حملے اسرائیل کی انٹیلی جنس ناکامی اور دفاعی حکمت عملی میں بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچائے اورمشرق وسطیٰ تنازع کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کرے کیونکہ اب اکیسویں صدی کا میدانِ جنگ سائبر ٹیکنالوجی، آرٹیفشل انٹلیجنس، نیوکلیئرپاور اور ڈیجیٹل ہتھیاروں سے لیس ہے، آج کے انفارمیشن دور میں ٹیکنالوجی کسی ایک کی میراث نہیں رہی ہے، اگر آج ایک فریق پراسرار ٹیکنالوجی کا بے دریغ استعمال کررہا ہے تو کل یہی ٹیکنالوجی دوسروں کے ہاتھ بھی لگ سکتی ہے اور پھر ہمیں ڈرنا چاہیے اس وقت سے جب ہماری جیب اور ہاتھوں میں موجود موبائل فون بھی اسی طرح دھماکے سے پھٹنے لگ جائیں۔