• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی… تنویر زمان خان، لندن
ہم لوگ میڈیا میں نجی محفلوں اور جلسوں میں روزانہ سنتے ہیں کہ فلاں کام حقوق انسانی کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے یا فلاں ملک بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ اگر کہیں کوئی سوسائٹی کا حصہ اپنا حق مانگتا ہے، جسے وہ بنیادی انسانی حق سمجھتا ہے تو اس معاشرے کے حصے سے لوگ اس کی مخالفت بھی کررہے ہوتے ہیں اور وہ اس مخالفت کو اپنی اقدار اور رسوم سے جوڑ کے رد کررہے ہوتے ہیں۔ خواتین کے حقوق اس معاملے میں صفحہ اول پر آتے ہیںکیونکہ جن معاشروں میں بھی خواتین اپنے حقوق کی آواز بلند کرتی ہیں وہاں ایک طبقہ ان کے خلاف ضرور اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور بغیر یہ سمجھے کہ ان خواتین کا آزادی کا نعرہ دراصل بنیادی انسانی حقوق کے زمرے میں آتا ہے، لیکن وہ مذہب اور جنسی تقسیم پر خواتین کا سر نیچا ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ اس طرح آزادی کے کئی شیڈ ہیں، جنہیں آج کا انسان ایک طرف بنیادی انسانی حق قرار دیتا ہے تو دوسری طرف اسے اخلاقی بے راہ روی سے تشبیہ دے کر رد کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ مثلاً LGBTکا ایشو خصوصی طور پر اسی بریکٹ میں آتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم انسانی حقوق کی ایسی کئی اقسام اور شعبوں پر بات کریں، آیے پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ بنیادی انسان کو یکساں طور پر کس طرح حاصل ہوسکتے ہیں۔ اسے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ تمام حقوق اور آزادیاں جن کے اس کرہ ارض پر بسنے والے تمام انسان حق دار ہیں۔ خواہ وہ پہاڑوں، میدانوں، خشکی، نمی، گری سری غرض کسی بھی صورت حال میں کسی بھی جگہ پر ہوں۔ انہیں یہ حقوق حاصل ہوں گے، جس میں جینے کے حق سے لے کر آزادی فکر و اظہار اور زندگی کے بہتر مواقع حاصل کرنے کا حق وغیرہ سب شامل ہے۔ یہی بنیادی انسانی حقوق ہیں، گوکہ ان حقوق کا دائرہ تو خاصا وسیع ہے۔ لیکن اصولی طور پر وہ تمام حقوق دنیا کے ہر غریب اور امیر طاقتور اور کمزور سب کے لیے یکساں طور پر دستیاب ہوں گے۔ ایک ایک کرکے تمام حقوق کا اس کالم میں احاطہ کرنا اس لیے بھی ممکن نہیں کیونکہ یہ حقوق اور ان کا ادراک اور انہیں عالمگیریت کے ساتھ تسلیم کرنے میں انسان نے ہزاروں سال کا ارتقائی سفر طے کیا ہے اور ابھی تک انسان اپنے حقوق کی بازیابی کا طلب گار ہے اور ان حقوق کے حصول کے لیے آواز بلند کررہا ہے۔ انسانی حقوق کی عدم دستیابی کا احساس تو انسان کو ہزاروں سال سے ہے لیکن قدیم انسان اپنی حق تلفی کو اپنا مقدر سمجھ کے خاموشی سے قبول کرلیتا تھا، لیکن ابھی تک کی تاریخ کی تحقیقات میں یہی پتہ چلا ہے کہ انسان کے پہلی دفعہ اپنے حقوق کو کسی تحریری شکل میں تقریباً تین ہزار سال پہلے مٹی یا پتھروں پر تحریری شکل دے کر تسلیم کیا گیا۔ تاریخ میں مختلف مذاہب نے اپنے اپنے دور کے مطابق ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کی اور طاقتو اور کمزور کو برابر انسان قرار دیا، لیکن یہاں تک یہی کافی نہیں تھا، جیسے جیسے انسان ترقی کرتا گیا یاد دوسرے لفظوں میں اس کے رہن سہن میں خوشحالی آتی گئی یا وہ اوزاور آلات ترقی کرتے گئے۔ جوں جو انسان کا شعور بڑھتا گیا اور اسے انسانی حقوق کا ادراک بھی ہوتا چلا گیا لیکن تاریخ میں یہ حقوق کا اصول انتہائی طبقاتی نوعیت کا رہا ہے۔ امراء اور شاہی خاندان کے حقوق اور تھے اور غریب رعایا کے حقوق ار ہوتے تھے، جیسے آقاؤں کے حقوق اور غلاموں باندیوں کے حقوق میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ غلام پر لازم تھا کہ وہ اپنے مالک کے لیے جی بھی سکتا ہے اور اسے اپنی مرضی کے بغیر اس کے لیے ضرورت پڑنے پر مرنا بھی ہے۔ یعنی وہ اپنے جیسے کے حق سے دستبردار ہے، آج کل جو انسانی حقوق بیان کیے جاتے ہیں، اس کی تاریخ زیادہ قدیم نہیں ہے۔ یہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل، بین الاقوامی عدالت انصاف اور یہ معاشی اور سماجی کونسلیں تو گویا بالکل کل ہی کی بات ہے۔ برطانیہ کے اندر ہی ابھی عورت کو ووٹ کا حق ملے سو سال سے کچھ ہی اوپر کا عرصہ ہوا ہے لیکن انسانی حقوق کے عالمی منشور (چارٹر آف ہیومن رائٹس) کو دستاویزی شکل اختیار کیے ابھی صرف75 سال کا عرصہ ہوا ہے، جس کے وجود میں آنے سے یہ بات تو طے ہوگئی کہ خواہ کوئی انسان ترقی یافتہ دنیا کے انتہائی امیر جگہوں پر رہ رہا ہو یا کوئی غربت اور افلاس کا مارا کسی پسماندہ علاقے کی جھونپڑی میں ہو۔ اس کے حقوق کو جو تعین اس چارٹر آف ہیومن رائٹس میں ہوگیا ہے، وہ اس کے حق دار بھی ہے اور پابند ہے۔ ابھی اس وقت بھی80فیصد دنیا یا دنیا میں بسنے والے انسان ان بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی سے محروم ہیں جس میں کئی طرح کی سماجی، سیاسی، معاشی، اخلاقی، جنسی، فکری اور دیگر حقوق اور آزادیاں شامل ہے، لیکن آج کا انسان یا معاشرے بہت تیزی سے اس صدیوں پرانےBarvievاور قدغینیں توڑرہے ہیں۔
یورپ سے سے مزید