• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج تین اکتوبر ہے، آج سے ٹھیک 34سال قبل جرمنی کے دونوں حصے باہمی اختلافات ختم کرکے ایک مضبوط و مستحکم وفاقی جمہوریہ جرمنی کی صورت میں دنیا کے نقشے پر اُبھرے، مشرقی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کا یہ دن ہر سال جرمنی میں نہایت دھوم دھام سے منایا جاتا ہے، جرمنی میں یہ واحد دن ہے جس کے موقع پر ملک بھر میں سرکاری تعطیل ہوتی ہے، جرمن یونیٹی ڈے کے تاریخی دن کی مناسبت سے مختلف تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں دیوارِ برلن گرائے جانے کے لمحات بطورِ خاص یاد کیے جاتے ہیں اور ہر سال ایک جرمن شہرقومی تقریبات کی میزبانی کا شرف حاصل کرتا ہے۔جرمنی آج سے فقط کچھ دہائیاں قبل دو الگ جرمن ممالک میں بٹا ہوا تھا، قدیم رومن دور میں ا سے جرمنیا کا نام دیا گیا تھا، رومن حکمران جولیس سیزر کے زمانے میں بھی مختلف قبائل میں منقسم جرمنیاکے آثار ملتے ہیں جبکہ مقدس رومن سلطنت میں رقبے کے لحاظ سے جرمن بادشاہت سب سے بڑی تصور کی جاتی ہے، ویسے یہ امر بھی خاصا دلچسپ ہے کہ آج بھی جرمنی شاید دنیا کا واحد ملک ہے جسے اسکے ہمسایہ اور دیگر ممالک مختلف زبانوں میں سو سے زائد مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔دوسری جنگ عظیم سے قبل یہاں ہٹلر کا راج تھا جسکی نفرت انگیز پالیسیوں نے جرمنی سمیت پوری دنیا کو خونریزی کی طرف دھکیل دیا، جنگ عظیم دوئم کے دوران جرمنی عالمی طاقتوں کا اکھاڑہ بنا اورہٹلر کے جنگی عزائم کا نتیجہ نازی جرمنی کی بدترین شکست اوردو لخت ہونے کی صورت میں نکلا، سامراجی قوتوں نے دیوارِ برلن قائم کرکے جرمنی کو دو حصوں میں تقسیم کردیا اور صدیوں سے ایک ساتھ رہنے والے جرمن باشندے ایک دوسرے کیلئے اجنبی قرار پائے۔سرد جنگ کے زمانے میں مشرقی جرمنی سویت یونین کے اثرورسوخ کے تحت جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک (جی ڈی آر)کہلایا جبکہ مغربی جرمنی (فیڈرل ری پبلک آف جرمنی) امریکہ کی زیرقیادت مغربی بلاک کا سرگرم حصہ بنا، تاہم جرمنی کا یہ غیرفطری بٹوارہ جرمن عوام کی جانب سے بہ امر مجبوری قبول کیا گیاتھا اور جرمنی کے دونوں حصوں میں ایک ہونے کی خواہش پنپتی رہی۔ سوویت یونین کی اپنے پڑوسی افغانستان میں عسکری جارحیت کے اثرات متعدد سوویت ریاستوں اور سوویت حلقہ اثر میں رہنے والے ممالک پر پڑنے لگے۔

اور جب افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے سر ٹکرانے کے بعد سوویت یونین آخری سانسیں لینے لگا تو دونوں جرمن ممالک میں بسنے والوں کے دِلوں میں پھر سے متحد ہونے کی امید تازہ ہوگئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کیبل ٹیلی وژن نشریات نئی نئی متعارف ہوئی تھیں اور دنیا بھر میں تیزی سے اپنی مقبولیت منوا رہی تھیں،عالمی ناظرین کی توجہ جرمنی میں تیزی سے لمحہ با لمحہ بدلتی صورتحال کی جانب مرکوز ہوگئی جہاں ایک عوامی مظاہرے کے دوران نو نومبر 1989ء کو مشرقی اور مغربی جرمنی کوتقسیم کرنے والی دیوارِ برلن کو ڈھا دیا گیا اور سرحد کے آر پار بسنے والے جرمن باشندوں کاجذباتی انداز میں ایک دوسرے کے ساتھ والہانہ لگائو کا مظاہرہ ٹی وی چینلز پر لائیو نشر کیا گیا، دیوارِ برلن گرانے کے بعد تیزی سے مختلف واقعات وقوع پذیر ہونے لگے، جیسے جیسے سوویت گرفت کمزور ہوتی گئی، مشرقی جرمنی میں اپنے مغربی حصے سے اتحاد کا جذبہ تقویت پاتا گیا، اگلے برس مارچ میں مشرقی جرمنی میں الیکشن کے انعقاد نے جرمن اتحاد کی راہ ہموار کی، جولائی میں مشرقی جرمنی نےاقتصادی معاملات اور کاروباری لین دین کیلئے مغربی جرمنی کی کرنسی کو اپنا لیا، اکتیس اگست کو یو نی فکیشن معاہدے پر دستخط ہوئے اور پھر دیوارِ برلن گرنے کے فقط ایک سال کے مختصرعرصے کے دوران تین اکتوبر 1990ء کا وہ ناقابلِ فراموش تاریخی دن آگیا جب مشرقی جرمنی (جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک) نے چا ر دہائیوں سے زائد علیحدگی کا عرصہ گزارنے کے بعد مغربی جرمنی (فیڈرل ری پبلک آف جرمنی)میں باضابطہ شمولیت اختیار کرلی۔ جدید دنیا کی عالمی تاریخ میں جرمن اتحاد کا دن یاد دِلاتا ہے کہ سامراجی قوتوں نے جرمنی میں دیوارِ برلن تعمیر کرکے چار دہائیوں سے زائد عرصے تک جرمن خاندانوں، دوستوں اور ایک قوم کو جبری طر پر علیحدہ رکھا، نظریاتی طور پر دونوں جرمنی ایک دوسرے سے الگ تھلگ متحارب سپرپاورز کے زیراثر رہے، تاہم جرمن عوام کے ایک ہونے کے آہنی عزم کو شکست نہ دی جاسکی اور آخرکار عوامی قوت نے نفرت و علیحدگی کی علامت دیوارِ برلن ڈھا دی۔ جرمن اتحاد کا دن عالمی امن، استحکام جمہوریت اور تنازعات کے پُرامن حل کیلئے امید کی کرن کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے کہ کسی قوم کو طاقت کے بل بوتے پر زیادہ عرصہ دبایا نہیں جاسکتا، ہر قسم کے تنازعات کا دیرپاحل ڈائیلاگ کے ذریعے ہی ممکن ہے،باہمی تعاون اور مشترکہ اقدارکا فروغ امن وخوشحالی کا باعث بنتا ہے۔میری نظر میں آج جب عالمی برادری نت نئے پیچیدہ چیلنجز کا سامنا کررہی ہے تو جرمن اتحاد کا دن مذاکرات، سفارت کاری اور مفاہمت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے،یہ دن عالمی جبر و ناانصافیوں سے نبرد آزما قوموں کو ایک ولولہ تازہ عطا کرتا ہے کہ آخری جیت ہمیشہ انسانیت، محبت، حق اور انصاف کی ہوتی ہے، جرمن اتحاد کا یہ تاریخی دن انسانوں کونفرتوں کے خاتمے کیلئے مشترکہ جدوجہد کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ میں آج کے تاریخی دن پر جرمن عوام کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے سمجھتا ہوں کہ جبری طور پرچالیس سال الگ رہنے والے جرمن ممالک کا پھرسے متحدہوجانا ایک ایسا قابلِ فخرکارنامہ ہے جس نے عالمی تاریخ پر انمٹ اثرات مرتب کیے ہیں، جرمنی کے دونوں حصے باہمی متحد ہوئے تو یورپ کے باقی ممالک بھی یورپی یونین کی چھتری تلے اکٹھے ہونے لگے اور آج یورپی یونین کا اہم بانی ممبر ملک جرمنی اتفاق و یکجہتی کی بدولت نہ صرف دنیا کی چوتھی بڑی اقتصادی قوت بن چکا ہے بلکہ عالمی امن کے لئے بھی ایک رول ماڈل ہے۔

تازہ ترین