• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرٹیکل 63 اے تشریح سے متعلق نظرثانی درخواست کا تفصیلی فیصلہ جاری

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے تشریح سے متعلق نظرثانی درخواست کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست منظورکی تھی، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نے 23 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔

سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے سے متعلق اکثریتی ججز کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، 17 مئی 2022 کا عدالتی فیصلہ آئین کے خلاف ہے، اقلیتی ججز کی رائے کو برقرار رکھا جاتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اکثریتی فیصلہ اراکین پارلیمنٹ کیلئے پریشانی کی عکاسی کرتا ہے، اکثریتی فیصلے کے مطابق تاریخ میں ایک بارایک پارلیمنٹیرین نے باضمیر ہوکرانحراف کا راستہ اختیار کیا، ایسی توہین اراکین پارلیمنٹ اور سیاستدانوں کے لیے افسوسناک ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے سیاستدانوں نے پاکستان حاصل کیا، قائداعظم محمد علی جناح نے سختی سے آئین کا راستہ اختیار کیا۔

فیصلے میں قانون کی بجائے غیرقانونی اصلاحات کی بھرمار

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اکثریتی فیصلے میں قانون کی بجائے غیرقانونی اصلاحات کی بھرمار ہے، اکثریتی فیصلے میں صحت مند 41 بار، غیرصحت مند 5 بار، بدتمیزی 9 بار لکھا گیا، برائی 8 بار، کینسر 8 بار، خطرہ 4 بار لکھا گیا، اکثریتی مختصر حکم اور اکثریتی فیصلہ کالعدم قرار دیے جاتے ہیں۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ 63 اے کا اکثریتی فیصلہ سپریم کورٹ کے بڑے بینچز کے فیصلوں سے بھی متصادم ہے، اقلیتی ججز کی طرف سے جو نتائج اخذ کیے گئے تھے، انہیں برقرار رکھا جاتا ہے، یہ ہمارے 3 اکتوبر 2024 کے مختصر حکم کی وجوہات ہیں۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ابتدا میں وکیل علی ظفر کی جانب سے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھایا گیا، علی ظفر کا موقف تھا کہ اکثریتی فیصلے کے مصنف جسٹس منیب کا بینچ میں ہونا لازمی ہے، علی ظفرنے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی تشکیل نو پربھی اعتراض اٹھایا، انہوں نے جسٹس منیب اختر اور جسٹس منصور کے خطوط پر بھی توجہ دلائی، علی ظفر نے کہا آرٹیکل 63 اے تشریح نظرثانی درخواست جلد بازی میں سماعت کیلئے مقررکی گئی۔

جسٹس منیب نے خود بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کی

نظرثانی درخواست پر جب بینچ تشکیل دیا گیا تو جسٹس منیب اختر اس کا حصہ تھے، جسٹس منیب اختر نے خود بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کی، جسٹس منیب اختر سے بینچ میں شمولیت کیلئے تحریری درخواست بھی کی گئی، انہوں نے بینچ میں شمولیت کی درخواست کو منظور نہیں کیا، پھرجسٹس منیب اختر کی جگہ ایک دوسرے جج کو بینچ میں شامل کیا گیا۔

فیصلے کے مطابق 63 اے نظرثانی درخواست 23 جون 2022 میں دائرکی گئی تھی، جلد بازی میں نظرثانی درخواست سماعت کیلئے مقرر کرنے کا اعتراض بے بنیاد ہے، سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال کے دورمیں نظرثانی درخواست سماعت کیلئے مقرر ہی نہ کی گئی، جسٹس منیب اختر نے بھی کبھی سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال کو یاد نہ کروایا۔

صدارتی ریفرنس عارف علوی نے سپریم کورٹ بھیجا

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صدارتی ریفرنس عارف علوی نے سپریم کورٹ بھیجا تھا، صدارتی ریفرنس میں کابینہ سے منظوری یا وزیراعظم کی ایڈوائز کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے ایک آئینی درخواست کی سماعت میں سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید کا بیان ریکارڈ کیا، سابق اٹارنی جنرل نے کہا ہم آرٹیکل 63 اے کے بارے ایک ریفرنس لارہے ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس منیب پرمشتمل بینچ نے حکمنامہ لکھوایا کہ ریفرنس اور آئینی درخواست کو یکجا کیا جائے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئینی دفعات کو ذاتی پسند اور اخلاقیات سے بدلنے سے گریز کرنا چاہیے، کوئی مخصوص جج اگر صحیح، غلط، اخلاقی یا غیراخلاقی سمجھتا ہے تو قانونی ہے نہ آئینی، قانون سازی کرنے والے اخلاقیات پر مبنی قانون سازی کرسکتے ہیں، عدالت نے صرف دیکھنا ہے کہ کیا قانونی اور کیا غیرقانونی ہے۔ پارلیمنٹ آئین بناتی ہے اور عدالت آئین کا اطلاق کرتی ہے، جج کسی قانون کی تشریح کرتا بھی ہے تو پیرامیٹرز میں رہ کر اصولوں کے مطابق کرنی چاہیے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اجلاس میں آرٹیکل 63 اے تشریح نظرثانی درخواست کا معاملہ آیا، کمیٹی کا اجلاس یکم اگست کو ہوا، اجلاس میں جسٹس منیب اختر بھی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا حصہ تھے، جسٹس منیب اور جسٹس منصور نے نظرثانی اپیل کوسماعت کیلئے مقرر کرنے کی ہامی نہ بھری، جسٹس منیب نہ جسٹس منصور کمیٹی کے تیسرے ارکان کی نامزدگی کا اختیار رکھتے ہیں، قانون نے کمیٹی کے تیسرے رکن کی نامزدگی کا اختیار چیف جسٹس سپریم کورٹ کو دیا ہے۔

کینیڈا، امریکا، بھارت اور برطانیہ کے عدالتی فیصلوں کا حوالہ

اکثریتی فیصلے میں کینیڈا، امریکا، بھارت اور برطانیہ کی عدلیہ کے فیصلوں کا حوالہ دیا گیا، اکثریتی فیصلے میں غیرملکی قانونی ماہر اور منصفین کو بھی کوٹ کیا گیا، ایسا لگتا ہے جیسے مختلف ممالک میں قوانین اور نتائج کا معلوم کیے بغیرحوالہ دیا گیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ جب تک آئین کی کوئی شق صدر کو اپنی مرضی سے عمل کرنے کا اختیار نہ دے، صدر کو مشورے پرعمل کرنا ہوگا۔ آرٹیکل 48(1) کہتا ہے، اپنے اختیارات کے استعمال میں صدر کابینہ یا وزیراعظم کے مشورے پر اور اس کے مطابق عمل کرے گا، صدر صرف ان معاملات میں اپنی صوابدید پر عمل کرسکتا ہے جن میں آئین کے تحت اسے ایسا کرنے کا اختیار ہے۔

فیصلے  میں کہا گیا کہ عدالت کو جمع کرایا گیا ریفرنس ڈاکٹر عارف علوی، صدراسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستخط کیساتھ تھا، اس ریفرنس کے ساتھ کوئی کابینہ کے فیصلے / قرارداد کا حوالہ نہیں تھا، نہ ہی ریفرنس کیساتھ وزیراعظم کی جانب سے اسے دائرکرنے کی اجازت کا مشورہ منسلک تھا۔

دو معزز جج صاحبان پہلے ہی ہدایت دے چکے تھے کہ ریفرنس کو منظور کیا جائے اور اسے عدالت میں سماعت کیلئے مقرر کیا جائے۔ رجسٹرار کے دفتر کو اس کے دائر کرنے پر کوئی اعتراض درج کرنے کا اختیار نہیں تھا، یہ ریفرنس 21 مارچ 2022 کو دائر کیا گیا، اسی دن اسے ریفرنس نمبر 1/2022 دیا گیا۔

اکثریتی فیصلہ اراکین اسمبلی کی توہین کے مترادف

آرٹیکل 63 اے کا اکثریتی فیصلہ اراکین اسمبلی کی توہین کے مترادف ہے، سیاستدانوں اور اراکین پارلیمنٹ کی یہ توہین افسوسناک ہے، جج کو غیرضروری چیزوں میں الجھنے کی بجائے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ دینا چاہیے۔

نظرثانی کیس میں انحراف سے متعلق فاروق نائیک بین الاقوامی حوالہ جات سے عدالت کی معاونت کی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور فاروق نائیک نے انحراف سے متعلق دنیا میں جاری پریکٹس سے متعلق آگاہ کیا، اراکین پارلیمنٹ کو ایوان کے اندر بولنے کی مکمل آزادی ہے، اگر ارکان پارلیمنٹ میں ووٹ نہیں دے سکتے تو یہ پارلیمنٹ میں دی گئی آزادی اظہار رائے سلب کرنے کے مترادف ہے۔

اکثریتی فیصلہ پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش کےخلاف ہے

اکثریتی فیصلہ آرٹیکل 63 اے میں دی گئی پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش کےخلاف ہے، افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے ججز نے آرٹیکل 63 اے کی ذیلی شق 4 کی مخصوص زبان پر غور ہی نہیں کیا، فاروق نائیک، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مختلف ممالک میں استعمال ہونے والے قوانین سے معاونت کی، معاونین کی دستاویزات کے مطابق پارٹی سربراہ کی ہدایت کے برعکس ووٹ دینے سے نااہلی نہیں ہوتی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق پاپوانیوگنی میں خودکار نااہلی کا قانون نافذ کیا گیا تھا جسے سپریم کورٹ نے ختم کیا۔

اکثریتی ججز نے پارٹی سربراہ کا صوابدیدی اختیار خود کو دے دیا

آرٹیکل 63 اے تشریح نظرثانی میں پارٹی کے سربراہ کو اختیار دیا گیا کہ پارٹی پالیسی کیخلاف جانے پر کسی ارکان کو منحرف قرار دے، اگر پارٹی سربراہ منحرف قرار دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو پہلے رکن کو شوکاز نوٹس دینا ہوتا ہے، اگر رکن پارٹی پالیسی کیخلاف جانے کی کوئی معقول وجہ بیان کردیتا ہے تو ہوسکتا ہے پارٹی سربراہ اسے منحرف قرار نہ دے، پارٹی سربراہ کی ہی صوابدید ہے کہ وہ کسی رکن کے منحرف ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرے، فیصلہ لکھنے والے اکثریتی ججز نے پارٹی سربراہ کا صوابدیدی اختیار خود کو دے دیا، اکثریتی فیصلے نے آئین بنانے والوں کی حکمت عملی کو بدل دیا اور ایسا طریقہ اختیار کیا جس پر دنیا میں کہیں بھی عمل نہیں کیا جاتا۔

کہیں نہیں لکھا منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا

آئین کے آرٹیکل 63 اے اوراس کی تمام ذیلی شقیں انتہائی واضح ہیں، آرٹیکل 63 اے کو کسی تشریح کی ضرورت ہی نہیں، کہیں نہیں لکھا کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا، آرٹیکل 63 اے میں نہیں لکھا کہ پارٹی کیخلاف ووٹ دینے پر رکن خود بخود ڈی سیٹ ہو جائے گا، ڈی سیٹ اور ووٹ شمار نہ کرنے کے حوالے سے اکثریتی ججز نے خود ہی اپنے فیصلے میں لکھ دیا، اکثریتی ججز نے آرٹیکل 63 اے میں فراہم کردہ 3 مختلف اختیارات کو ختم ہی کردیا، اکثریتی ججز نے پارٹی سربراہ، الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کا اختیار ختم کردیا، اکثریتی ججز نے ایسا کیا جس کی اجازت نہیں تھی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ آئین تو دور کی بات، قانون کی جانب سے بھی دیے گئے اختیارات کو کوئی جج یا عدالت ختم نہیں کرسکتی۔

تین آئینی عہدیداروں نے آئین سے ہی انحراف کیا

آرٹیکل 63 اے نظرثانی فیصلے میں بانی پی ٹی آئی،عارف علوی اور قاسم سوری کی آئین شکنی کا ذکر کیا گیا۔ اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان کیخلاف عدم اعتماد پر ووٹنگ 3 اپریل 2022 کو ہونا تھی، ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے ووٹنگ کی اجازت نہ دے کرآئین کے آرٹیکل 95 (2) کیخلاف ورزی کی، آئین کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک آنے کے بعد وزیراعظم اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش نہیں کرسکتا، اس وقت کے صدرعارف علوی نے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی سفارش پراسمبلی تحلیل کی، تین آئینی عہدیداروں جنہوں نے آئین کی پاسداری کا حلف لے رکھا تھا انہوں نے آئین سے ہی انحراف کیا۔


قومی خبریں سے مزید