• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے ایس ایس جی ہیڈ کوارٹر کا دورہ کرتے ہوئے افسروں اور جوانوں سے جو گفتگو کی اسے آئی ایس پی آر کی ایک پریس ریلیز میں بیان کیا گیا اور توقع کے عین مطابق ذرائع ابلاغ میں اس مختصر سے جملے کو بہت نمایاں کیا گیا کہ ’’فوج ہر حال میں اپنے ادارے کے وقار کا تحفظ کرے گی‘‘۔ ہمارے ملک میں فوج اور سیاسی قیادت کے درمیان غیر ضروری اور نقصان دہ کشمکش کی کہانی اتنی پرانی ہے کہ ہمارے تمدنی مکالمے میں فریقین کے خود ساختہ ترجمان بہت تجربہ کار ہو چکے ہیں۔ جنرل راحیل کے بیان پر خیال آرائی ، قافیہ بندی اور زاویہ نگاری کی جملہ صلاحیتیں بروئے کار لائی گئی ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہا گیا کہ فوج کے سربراہ کا اشارہ وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے کچھ حالیہ بیانات کی طرف تھا۔ پھر خبر دی گئی کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف عدالتی کارروائی کے ردعمل میں افسروں اور جوانوں میں غصہ پایا جاتا ہے۔ غیر ذمہ دارانہ صحافت کا ایک نمونہ یہ رہا کہ خواجہ محمد آصف کی آٹھ برس پرانی ایک تقریر کا ٹکڑا بار بار ٹیلی ویژن ا سکرین پر دکھایا گیا۔ نتیجہ یہ کہ افواہوں اور خدشات نے ملکی فضا میں ہلچل پیدا کر دی۔ ہمارے ہاں گرم گفتاری نے ایسا چلن پکڑا ہے کہ ٹھنڈے لہجے کی قیمت گر گئی ہے۔ کسی معاشرے میں یہ رجحان قابل تحسین نہیں ہوتا۔ ہمہ وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار رہنا اجتماعی پسماندگی کا اشارہ بھی ہے اور انفرادی سطح پر سستی مقبولیت کی غیر ذمہ دارانہ خواہش بھی۔ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ان معاملات میں ہمارا ایک تاریخی تناظر ہے، کچھ اصولی معاملات ہیں اور کچھ زمینی حقائق ہیں۔ پختہ سیاسی سوچ ان سب زاویوں کا احاطہ کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔
اصول کی بات یہ ہے کہ پاکستان کا دستور پارلیمانی جمہوریت کو واحد جائز اور قابل قبول طرز حکمرانی قرار دیتا ہے۔ جمہوریت میں دیگر نکات کے علاوہ یہ اصول بھی کارفرما ہے کہ فیصلہ سازی میں منتخب قیادت حتمی بالادستی رکھتی ہے۔ ملک کا کوئی ادارہ فیصلہ سازی، پالیسی اور انتظامی امور میں پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے ذریعے وجود میں آنے والی حکومت سے ماورا ہو کر ملکی مفاد کی نگہبانی کا دعویٰ کرے تو اسے آئین سے انحراف سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ عوام کے حق حکمرانی کا استعارہ ہے۔ پاکستان ایک جمہوریہ ہے۔ یہاں حکومت کا مطلب محض وزیراعظم کی ذات یا ان کے چند درجن وزرا یا ارکان پارلیمنٹ نہیں بلکہ یہ آئینی اور سیاسی حقیقت ہے کہ حکومت عوام کی نمائندہ ہے۔ عوام کی حکمرانی دستور کا تقاضا ہے ۔ ہمارے اس عمرانی معاہدے کو کسی کی شخصی ذہانت، مفروضہ اہلیت، دیانت داری اور اچھی نیت کی نذر نہیں کیا جا سکتا۔ جنرل راحیل نے اپنے بیان میں واضح طور پر کہا ہے کہ فوج تمام اداروں کا احترام کرتی ہے۔ بدقسمتی سے اس اشارے پر مناسب توجہ نہیں دی گئی۔ پاکستان کی فوج پاکستان کا اثاثہ ہے۔ فوج کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے تحفظ کا فرض سونپا گیا ہے۔ فرد ہو یا اجتماع، اپنے تحفظ کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ پاکستان کے لوگ اپنی فوج سے محبت کرتے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو۔ برف پوش پہاڑوں اور تپتے ہوئے صحرائوں میں جان ہتھیلی پر رکھ کر ملک کے لئے لڑنے والے ہمارے اپنے بھائی اور بیٹے ہیں۔ فوج کا وقار پاکستان کے اجتماعی وقار سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ پاکستان کی فوج کا وقار اتنا ہی بلند ہو گا جتنا معاشی، تمدنی ، علمی دنیا میں پاکستان کا وقار بلند ہو گا۔ یہ درست ہے کہ عسکری ثقافت میں کمانڈر اور سپاہی کے درمیان یگانگت کی ایک ایسی روایت موجود ہوتی ہے جسے چھائونی سے باہر سمجھا نہیں جا سکتا۔ اسے ’’Espirit De corps ‘‘ کہا جاتا ہے۔ تاہم یہ یگانگت پیشہ ورانہ امور سے تعلق رکھتی ہے اور اس یگانگت کا بنیادی تقاضا ہے کہ اسے قوم کی سیاسی اور تمدنی زندگی کے ساتھ اس طرح جوڑ کے دیکھا جائے کہ یہ باہم ایک دوسرے کو مضبوط کریں۔ ملکی محافظوں کے مابین یگانگت کے اس رشتے کو باقی قوم کے ساتھ مخاصمانہ نفسیات کا یرغمال نہیں بنانا چاہئے۔ تمام ملکی اداروں کے احترام کا یہی تقاضا ہے کہ دستور میں جسے جو فرض سونپا گیا ہے اسے ادا کیا جائے۔ اداروں کے مابین حقیقی احترام ایک مہذب قوم کی نشانی ہے۔ اب تاریخی تناظر کی طرف چلتے ہیں۔ دیکھئے ہماری تاریخ میں فوج نے چار مرتبہ آئینی عمل میں مداخلت کی۔ یہ چاروں تجربے ناکام ہوئے۔ ناکامی کی دلیل یہ ہے کہ ہر مرتبہ پاکستان کو جمہوری اور دستوری طریقہ کار کی طرف لوٹنا پڑا۔ اس نو ع کی مہم جوئی سے عوام کی معاشی اور تمدنی ترقی متاثر ہوئی۔ ادارہ جاتی استحکام مجروح ہوا۔ آئین کی بالادستی اور قانون کی پاسداری کے تصورات پر ضرب لگی۔ پاکستان کے دولخت ہونے اور دوسرے بہت سے غیر ضروری جھگڑوں میں الجھنے کے معاملات کو ایک طرف رکھیے اور اب یہ بحث بھی لاحاصل ہے کہ ملک کو فوجی آمریتوں کے دوران زیادہ نقصان اٹھانا پڑا یا نیم جمہوری تجربوں نے ہمیں بدحال کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی اس قوم کو صحیح خطوط پر تعمیر کرنے میں ناکام ہوئے۔ تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ان غیر آئینی مداخلتوں کے نتیجے میں پاکستان کا وقار بلند نہیں ہوا۔ اس دعوے کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی نہیں جو شرح صدر کے ساتھ کھڑا ہو کر ماضی کی آمریتوں کا تحفظ کر سکے۔ آمریت کتابِ قانون اور حرفِ نصاب سے انحراف ہے۔ حادثہ اخلاقی قدر نہیں ہوتا۔ جرم کو نیکی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ رات کی تاریکی میں کیے گئے جرم سے اچھائی کا راستہ نہیں نکل سکتا۔ اگر سیاسی رہنما اور جمہوری کارکن ماضی کی آمریتوں اور آمریت پسند رجحانات کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو یہ آواز پاکستان کے مستقبل کے لئے نیک شگون ہے۔ اسے فوج کے ادارے کی مخالفت نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہ آواز تو اس پاکستان کے استحکام کی ضمانت ہے جو ہماری فوج کو بھی مزید مضبوط اور قابل احترام بنائے گا۔زمینی حقائق یہ ہیں کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت فرد جرم عائد کر کے سیاسی قیادت نے ایک شاندار کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس قابل قدر پیش رفت کو سیاسی سرمائے میں ڈھالنے کا راستہ یہی ہے کہ اگر عدالت پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دیتی ہے تو اس میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ ہمیں جمہوریت کے شفاف چشمے کو گدلا نہیں کرنا چاہئے۔ پرویز مشرف ہماری تاریخ کا ناخوشگوار حصہ بن چکے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ان افراد ، گر وہوں اور رویوں کو بھی دفن کر دیں جنہوں نے پرویز مشرف کی آمد پر شادیانے بجائے تھے۔ ایسا کرنے کا واحد راستہ جمہوریت کا تسلسل اور جمہوری ثقافت کا استحکام ہے۔ غور کیجئے کہ جو افراد آج پرویز مشرف کو پھانسی پر لٹکانے کے خواہاں ہیں ان میں سے بیشتر وہی ہیں جنہوں نے ماضی میں آمریتوں کے ہاتھ مضبوط کئے۔ یہ ایک انہدامی گروہ ہے جس کی خواہش یہ ہے کہ پاکستان کے گلی کوچوں اور چوراہوں میں پھانسی گھاٹ تعمیر کر دئیے جائیں۔ یہ اپنے ناپسندیدہ لوگوں کے خلاف فتویٰ دے کر انہیں پھانسیوں پر لٹکایا کریں۔ پاکستان کا مستقبل معاشی پیداوار، تجارت اور علم میں ہے۔ پھانسی گھاٹ تعمیر کرنے میں نہیں۔ پھانسی گھاٹ پر گھاس نہیں اگتی۔
تازہ ترین