• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان ایک مثالی گل دستہ تھا، جسے مشرف حکومت نے بکھیر کر رکھ دیا

بات چیت: وحید زہیر، کوئٹہ

شکیلہ نوید دہوار ایک خوش مزاج اور درد مند شخصیت ہونے کے ساتھ، سیاسی وسماجی کاموں میں دل چسپی کے باعث بھی خواتین میں مقبول ہیں۔ شوہر کی شہادت کے بعد بچّوں کی تعلیم و تربیت اور دیگر گھریلو امور انتہائی ذمّے داری سے نبھارہی ہیں۔ رُکن اسمبلی کے طور پر بھی اُن کی کارکردگی مثالی رہی۔ گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوئی، جس کا احوال جنگ،’’ سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔

٭ ٭ ٭

س: اپنی تعلیم و تربیت، خاندان وغیرہ سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: ہمارا آبائی علاقہ سبّی ہے۔ والد، میر عبدالحمید رئیسانی ٹھیکے دار تھے اور بچّوں، بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کے پُرجوش حامی تھے۔شاید کوئٹہ میں گھر کی تعمیر کے پیچھے بھی یہی سوچ کارفرما تھی۔ مَیں نے پرائمری سے میٹرک تک ریلوے گرلز ہائی اسکول، کوئٹہ سے تعلیم حاصل کی۔

بلوچستان یونی ورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشنز اور براہوی میں ماسٹرز کی اسناد لیں۔ میرے چچا، ڈاکٹر کمال رئیسانی، ڈاؤ یونی ورسٹی، کراچی میں تھے، وہ وہیں سے امریکن ایئر فورس کے میڈیکل کورس کے پہلے پاکستانی کے طور پر منتخب ہوئے اور بحیثیت کرنل ریٹائر ہوئے تھے۔

مَیں خود یو ایس اے المنائی ہوں۔ طالبِ علمی کے زمانے میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے وابستگی رہی۔ میرے بڑے بھائی ریلوے میں ملازم تھے، جب کہ دوسرے بھائی طارق رئیسانی، محترمہ بے نظیر بھٹّو کی شہادت تک پیپلز پارٹی سے منسلک رہے۔ وہ پی ایس ایف کے جنرل سیکرٹری بھی رہ چُکے ہیں۔

س: آج کے دَور اور ماضی کی روایات میں کیا فرق محسوس کرتی ہیں؟

ج: ہمارا ماضی، آج سے لاکھ درجہ بہتر تھا۔ غربت کے باوجود اٹوٹ رشتے تھے، ہر محلّہ اپنے ہی رشتے داروں کا محلّہ لگتا تھا، بچّوں کو غلطیوں پر گھر اور گھر سے باہر مار پڑتی، ڈانٹ ڈپٹ ہوتی۔ اساتذہ واقعی والدین کا درجہ رکھتے تھے، ہم سائے ایک دوسرے کے گھر سالن بھجوا کر محبّت کے ذائقے تقسیم کرتے تھے۔ ہر شخص ترقّی کی بجائے زندگی میں آسانیاں تلاش کرتا تھا۔ علاقائی تعصّب، لسانی تفریق اور مذہبی منافرت کا دُوردُور تک نام و نشان نہیں تھا۔ 

ہر گھر سے گلیوں کی جانب دیواروں پر، سیب اور انگور کے خوشے لٹک رہے ہوتے، نہ توڑنے کی شرارت اور اگر کوئی توڑ بھی لے، تو کوئی فساد و ہنگامہ نہیں۔ نرم دلی و شفقت بزرگوں کے چہروں سے عیاں تھی، آنکھوں سے شرم و حیا ٹپکتی۔ مسافروں کے لیے مساجد میں کھانا دست یاب ہوتا۔جب کہ ہمارے بزرگوں کے قصّے، کہانیاں اور تجربات و مشاہدات اس سے بھی زیادہ شان دار، خُوب صُورت تھے۔

س: سیاست میں کیسے آنا ہوا اور کس سے متاثر ہیں؟

ج: یہ ہمارے بچپن کی بات ہے۔ہم ریلوے ہائوسنگ سوسائٹی میں رہائش پذیر تھے، مَیں اور ڈاکٹر فوزیہ ساتکزئی گھر کے سامنے سائیکل چلایا کرتی تھیں، چند قدم کے فاصلے پر سردار عطاء اللہ مینگل کی رہائش گاہ تھی، جب کبھی وہاں اُن کی آمد ہوتی، تو ہم بھی باقی ہم سایوں کے ساتھ اُن کا استقبال کرتے۔ وہ بڑے پیار سے جواب دیتے۔ اُن کی شخصیت اور عوامی عقیدت دیکھ کر مَیں نے اُنہیں اپنا رہنما مان لیا تھا۔ 

یوں سمجھ لیں، وہ میرے آئیڈیل بنے۔پھر میری شادی بھی ایک سیاسی گھرانے میں ہوئی۔ شوہر، ملک نوید دہوار، اُن کے چچا ملک سیف الدین دہوار، نام وَر دانش وَر ملک سعید دہوار اور ملک گل محمّد دہوار کا شمار بلوچستان کے سیاسی اکابرین میں ہوتا ہے، جنہوں نے وَن یونٹ کے خلاف اور جمہوریت کے لیے جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 2006ء میں پرویز مشرّف کی حکومت میں سردار اختر مینگل قید تھے، تو مَیں نے خواتین کی ایک بڑی احتجاجی ریلی نکالی اور اُس کی قیادت کی۔

2008ء کے انتخابات کا پارٹی نے احتجاجاً بائیکاٹ کیا۔2013ء کے انتخابات میں پارٹی نے میرے شوہر، ملک نوید دہوار کو مستونگ، قلاّت، سوراب کی قومی اسمبلی کی نشست کے لیے ٹکٹ دیا، جب کہ میرا نام خواتین کی صوبائی نشست کے لیے فہرست میں شامل تھا، لیکن وہ انتخابات دھاندلی کی نذر ہوگئے۔ 

2017ء میں میرے شوہر کو شہید کیا گیا تاکہ ہم پارلیمانی سیاست سے کنارہ کش ہو جائیں اور سردار اختر مینگل کا ساتھ چھوڑ دیں۔ مَیں اُس وقت یورپی یونین کے ایک پراجیکٹ میں کام کر رہی تھی۔ 2018ء کے انتخابات میں ہماری پارٹی تمام تر دھاندلیوں کے باوجود چند نشستیں جیتنے میں کام یاب رہی اور مجھے بطور ایم پی اے خواتین کی مخصوص نشست پر منتخب کیا گیا۔

نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے..... تصاویر: رابرٹ جیمس
نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے..... تصاویر: رابرٹ جیمس

س: رُکن اسمبلی کے طور آپ کی ترجیحات کیا رہیں؟

ج: تین سال تک تو جام کمال کی حکومت تھی، جس نے زیادتیوں کی حد کر دی تھی۔ ہمیں ترقیاتی فنڈز ملے اور نہ ہی اسمبلی میں ہماری باتوں کو سنجیدہ لیا گیا۔ میر عبدالقدوس بزنجو نے جام کمال کو اقتدار سے بے دخل کیا اور ہماری پارٹی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا نوٹس لیا۔ محض دو سالوں میں، مَیں نے گرلز اسکولز میں طالبات کو در پیش مشکلات دُور کرنے کی مختلف اسکیمز پر کام کیا۔ 

پینے کے پانی کی قلّت اور ٹینکر مافیاز کے خلاف آواز بلند کی۔ کچھ علاقوں میں ٹیوب ویل پراجیکٹس مکمل کروائے۔ بنیادی صحت مراکز بنوائے۔ عطاء اللہ مینگل کے نام سے ایمبولینس پروگرام کی کوشش کی، مگر ان ایمبولینسز کی فراہمی میں ٹال مٹول سے کام لیا گیا۔ یہ ایمبولینس منصوبہ اب بھی پی ایس ڈی پی میں شامل ہے۔ مستونگ پائلٹ اسکول میں فٹ بال گراؤنڈ بنوایا۔ پرانی بلڈنگ کی مرمّت کے علاوہ گرلز کالج کو بھی بعض سہولتیں فراہم کیں۔

چوں کہ ہمارے پاس وزارتیں تو تھیں نہیں، لہٰذا عوامی بھلائی کے کاموں کے سلسلے میں کولیگ وزراء کے محکموں تک رسائی کے لیے تگ و دَو کرتے رہے۔سیاست میں غیر ضروری تناؤ اور ذاتی عناد کا سامنا کرنا پڑا۔ بلوچستان میں روزمرّہ معاملات میں خواتین کو زیادہ مسائل درپیش ہیں، جنہیں خواتین نمائندگان ہی بہتر سمجھ سکتی ہیں اور اِس مقصد کے لیے اسمبلی میں خواتین ارکان کی تعداد زیادہ ہونی چاہیے۔

س: آپ کا دُور دراز علاقوں میں بھی آنا جانا رہتا ہے، تو وہاں کے کیا حالات ہیں؟

ج: خواتین کو پانی کے حصول کے لیے میلوں دُور جاتا دیکھ کر دل بہت رنجیدہ ہوتا ہے۔ سیندک کی مثال لے لیں۔ وہاں حمل آباد نامی ایک علاقہ ہے، جہاں کے باسی پانی، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں کو بھی ترستے ہیں۔

س: سہولتوں کے فقدان کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؟

ج: وفاق کی بیگانگی، حالاں کہ بلوچستان کو ہمیشہ سے بلوچ، سندھی، پنجابی، سرائیکی، براہوی بولنے والوں کا مثالی گل دستہ ہونے کا اعزاز حاصل رہا، مگر پرویز مشرّف حکومت نے اس گل دستے کو توڑ کر، بکھیر کر نفرتوں کو جنم دیا، جس کا خمیازہ نہ صرف بلوچستان، بلکہ پورا پاکستان بُھگت رہا ہے۔ ہر صوبے میں بسنے والوں کی نفسیات اور مسائل کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔’’ ایک ایس ایچ او کی مار‘‘ والی بات غیر سنجیدگی کے سِوا کچھ نہیں۔

اگر ویلفیئر اسٹیٹ میں بھی بے روزگاری ہو، صحت اور تعلیم سے چشم پوشی ہو، خواتین، بزرگوں اور بچّوں کی ضروریات اور احترام پر توجّہ نہ ہو، تو پھر ناکامی ہی سے دوچار ہوں گے۔ ترقّی یافتہ ممالک انصاف کے ستون پر کھڑے ہیں، ہم کیسے ناانصافیوں پر عوام سے خوش رہنے کی توقّع رکھ سکتے ہیں۔کیا یہ اہم سوال نہیں کہ بلوچستان کی خواتین آئے روز دھوپ اور شدید سردیوں میں احتجاج کے لیے کیوں نکل آتی ہیں۔ 

سندھ، کے پی کے اور پنجاب میں بھی عام آدمی نالاں نظر آتا ہے۔ بدعنوانی کے چرچے مُلک سے باہر بھی ہیں۔ سیاسی قیادتیں ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے پر کیوں تُلی ہوئی ہیں۔ ہمارا تعلیمی گراف روز بروز گر رہا ہے۔ سعودی عرب جیسے برادر ممالک ہمارے بھکاریوں کی شکایات کر رہے ہیں۔ہمارے ذہین افراد دیگر ممالک میں کام کو ترجیح دے رہے ہیں۔

س: آپ کی نظر میں اِن مسائل کا حل کیا ہے؟

ج: عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور خوف دُور کیا جائے۔ سیاست دان اقتدار میں آنے کے بعد انتقامی کارروائیوں کی بجائے گزشتہ حکومت سے بہتر عوامی تعمیر و ترقّی کے پروگرام ترتیب دیں۔ انسانی حقوق کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ بے روزگاری، مصنوعی منہگائی، کرپشن اور اخلاقی پستی جیسے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں اور سب سے بڑھ کر اداروں میں اختیارات کا غلط استعمال کرنے والوں کا محاسبہ کیا جائے۔ میرے خاندان کے پندرہ کے قریب سپاہی اور سیاست دان قتل ہوچُکے ہیں، یہ کیسی اور کہاں کی حُکم رانی ہے۔ 

دوسرے صوبوں میں بھی ایسی ہی سازشیں جنم لے رہی ہیں۔بڑھتی مذہبی منافرت بھی سب کے سامنے ہے۔ ہم نے اسمبلیوں میں اِن نکات پر بحث کی ہے، قرار دادیں بھی پیش کیں، مگر ان پر عمل درآمد ہمیشہ خواب ہی رہا۔ جب بلوچستان یونی ورسٹی میں ہراسانی کے اسباب اور عدالتی فیصلے کے برعکس فیصلہ سامنے آیا، تو ہم سمجھ گئے کہ اداروں میں کتنی سنجیدگی ہے۔

س: سیاست دانوں پر کرپشن کے الزامات بھی تو لگتے رہتے ہیں؟

ج: یہ بھی ہماری بد قسمتی ہی ہے۔ سیاست دان، سرکاری اداروں سے کام لیتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ سرکاری اداروں میں منصوبوں میں ٹال مٹول کیوں کیا جاتا ہے، سینئر افسران پر جونیئر کو کیوں ترجیح دی جاتی ہے، بدنامِ زمانہ اہل کاروں کا محاسبہ کیوں نہیں کیا جاتا اور حقیقی سیاست دانوں کو اسمبلیوں میں آنے سے کیوں روکا جاتا ہے۔ 

سیاست دان سیاست میں انتظامی افسران کی مداخلت کی بھی بات کرتے ہیں۔ میرے خیال میں تو سیاست دانوں پر الزامات لگانے کی بجائے، کرپشن کے مرکز پر بات کی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔

س: آپ کے کتنے بچّے ہیں اور کیا کرتے ہیں؟

ج: میرے چار بچّے ہیں۔ بڑا بیٹا ملک کمیل دہوار بزنس ایڈمنسٹریشن میں گریجویٹ ہے، اب اسکالر شپ پر مزید تعلیم حاصل کرنے جا رہا ہے۔ بیٹی مائیکان نیشنل کالج آف آرٹس، لاہور میں پڑھ رہی ہے۔جب کہ ملک مہروان نویں اور اُس سے چھوٹا ملک ساتہو کلاس ٹو میں ہے۔

س: آپ کِن کِن ممالک کا دورہ کرچُکی ہیں؟

ج: تھائی لینڈ میں مختلف آرگنائزیشنز کے ساتھ کام کرچُکی ہوں۔ جینڈر اینڈ ایجوکیشن پر دوماہ کی تربیت حاصل کی، سیاسی ایکسچینج پروگرام کے تحت تُرکیہ اور جرمنی جاچُکی ہوں، عُمرے کی سعادت بھی حاصل کی ہے، دبئی میں فیملی کے لوگ ہیں، تو وہاں بھی جانا ہوتا ہے۔

س: کون کون سی زبانیں بول لیتی ہیں؟

ج: مَیں نے بلوچستان کے جس گل دستے کا ذکر کیا تھا، اُس کے تمام پھولوں کی زبانیں بول لیتی ہوں۔ بلوچی، براہوی، انگریزی، اردو، دہواری، پشتو اور سندھی روانی سے بولتی ہوں۔

س: کتابیں بھی پڑھتی ہوں گی؟

ج: جی جی۔ میری تو اپنی ذاتی لائبریری ہے، جب کہ سیاسی، سماجی اور دیگر موضوعات پر نئی آنے والی کتب سے بھی استفادہ کرتی ہوں۔

س: کھانے میں کیا پسند ہے؟

ج: مُلک سے باہر رہی ہوں، جس کے دَوران خود ہانڈی پکاتی تھی۔ پھر یہ کہ ہمارا سیاسی گھرانہ ہے اور اکثر مہمان وغیرہ آتے رہتے ہیں، تو اُن کے لیے خود کھانا بناتی ہوں۔

س:کون سا پھول پسند ہے؟

ج: پھول بہت پسند ہیں، مگر شہر میں جگہ کی تنگی ہے، البتہ بالکونیوں میں پرندوں کے لیے دانے، پانی کا انتظام کر رکھا ہے، جن کی چہچہاہٹ سُن کر سکون ملتا ہے۔

س: جب کبھی اُکتاہٹ یا ذہن پر بوجھ محسوس کرتی ہیں، تو کیا کرتی ہیں؟

ج: چلتن پہاڑ کے تفریحی مقام پر جاتی ہوں۔ نیز، سال میں ایک بار شاہ عبداللطیف بھٹائی اور پیر دوپاسی کے مزارات پر بھی جاتی ہوں۔ کبھی کبھار صوفیانہ کلام اور موسیقی سُن لیتی ہوں۔ اکثر شہید شوہر کے مزار پر جا کر فاتحہ پڑھتی ہوں کہ اِس طرح روحانی تسکین حاصل ہوتی ہے۔

س: نئی نسل کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟

ج: ڈیجیٹل سہولتوں کا مثبت استعمال، انسانی اقدار کا فروغ، گم راہی اور بے راہ روی سے اجتناب، گلوبل وارمنگ سے آگاہی اور اپنے اپنے حصّے کی ذمّے داریاں پوری کریں۔

نیز، جدید علوم پر دسترس بھی بے حد ضروری ہے۔ بے شک سرمایہ دارانہ نظام ہمارا مقدّر بن چُکا ہے، تاہم، اس کے باوجود، ہم اپنے نیک احساسات و جذبات کے ذریعے اس کی بے رحمی سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

سنڈے میگزین سے مزید