اسرائیلی وحشت، سفاکیت اور درندگی میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ صرف غزہ میں شہید ہونے والوں کی تعداد 90 ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ صہیونی ریاست، اسرائیلی مظالم کے خلاف بر سرِ پیکار تنظیم حماس کے رہنماؤں کو پے در پے شہید کر رہی ہے۔ اسماعیل ہنیہ، حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد حماس کے نئے سربراہ یحییٰ سنوار کو بھی اسرائیلی درندوں نے سفاکیت کے ساتھ شہید کر دیا ہے۔ اسرائیل اتنا دلیر اس لیے ہے کہ اس کو سپر پاور امریکا کی پشت پناہی اور بھر پور تعاون حاصل ہے۔ امریکا صرف ایک سال میں یعنی اکتوبر 2023ء سے اکتوبر 2024ء تک اسرائیل کو 17 ارب ڈالر کی امداد دے چکا ہے، جبکہ مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ 57 مسلم ممالک میں سے کوئی ایک بھی نہیں ہے۔ اسلامی تاریخ کا آغاز ہی ایثار، قربانی، ہمدردی اور اللہ کیلئےتن من دھن تج دینے سے ہوتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے نبی حضرت محمد ﷺ کے اشارے پر اپنا سب کچھ ہی نچھاور کر دیا تھا۔ ’’مصعب بن عمیرؓ‘‘ اسلام لانے سے پہلے بڑے ناز وںمیں پلے تھے۔ دو دو سو درہم کا جوڑا پہنتے تھے۔ ابتدائے اسلام میں ہی گھروالوں سے چھپ کر مسلمان ہوگئے۔ کسی نے ان کے گھروالوں کو خبر کردی۔ انہوں نے ان کو باندھ کر قید کردیا۔ کچھ روز اسی حالت میں گزرے۔ جب موقع ملا، چھپ کر بھاگ گئے۔ جو لوگ حبشہ کی طرف ہجرت کررہے تھے، ان کے ساتھ چلے گئے۔ وہاں سے واپس آکر مدینہ منورہ ہجرت فرمائی۔ زہدوفقر کی زندگی بسر کرنے لگے۔ ایسی تنگی کی حالت ہوگئی کہ ایک مرتبہ حضور ﷺتشریف فرماتھے۔ حضرت مصعبؓ سامنے سے گزرے۔ ان کے پاس صرف ایک چادر تھی۔ یہ کئی جگہ سے پھٹی ہوئی تھی۔ حضور ﷺ نے ان کی پہلی والی حالت یاد کی۔ پھر آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ مصعب بن عمیرؓ کو صبر کی تلقین کی اور بشارتیں دیں۔غزوۂ احد میں مہاجرین کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں آیا۔ جب مسلمان نہایت پریشانی کی حالت میں منتشر ہورہے تھے تو یہ جمے ہوئے کھڑے تھے۔ ایک دشمن ان کے قریب آیا اور تلوار سے ہاتھ کاٹ دیا۔ جھنڈا گرنا ایسا تھا گویا مسلمانوں کو شکست ہوگئی۔ مصعب بن عمیرؓ نے فوراً پرچم دوسرے ہاتھ میں لے لیا۔ دشمن نے دوسرے ہاتھ کو بھی کاٹ ڈالا۔ حضرت مصعبؓ نے دونوں بازوئوں کو جوڑکر جھنڈے کوسینےسے چمٹالیا۔ دشمن نے تیر مارا جس سے نازونعم میں پلے ہوئے یہ قریشی شہزادے شہید ہوگئے۔ جب نازوں کے پلے اس رئیس زادے کو دفن کرنے کی نوبت آئی تو صرف ایک چادر ان کے پاس تھی جو پورے بدن پر نہیں آتی تھی۔ سر کی طرف سے ڈھانکا جاتا تو پائوں کھل جاتے اور پائوں کی طرف کی جاتی تو سر کھل جاتا۔ حضور ﷺنے فرمایا: ’’چادر کو سر کی جانب کردیا جائے اور پائوں پر اِذخر (گھاس کے تنکے) ڈال دیے جائیں۔‘‘یہ آخری رخصتی ہے اس نازک اور نازوں سے پلے ہوئے نوجوان کی جو دو سو درہم کا جوڑا پہنتا تھا۔ آج اس کو کفن کی ایک چادر بھی پوری نہیں مل رہی تھی۔ آپ ہمت کا اندازہ بھی لگائیں کہ زندگی میں جھنڈا نہ گرنے دیا۔ دونوں ہاتھ کٹ گئے، مگر پھر بھی نہ چھوڑا۔ بڑے نازوں کے پلے ہوئے تھے مگر ایمان دلوں میں جما تھا۔ روپیہ پیسہ، راحت وآرام ہر قسم کی چیز سے بیگانہ ہوگئے۔ کبھی حبشہ کے جنگلات تو کبھی عرب کے صحرا،باطل کے سامنے ڈٹے رہے۔ یہاں تک کہ جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔یمنی شہزادے کا تعلق بھی عرب کے انتہائی مالداروں میں ہوتا تھا۔ عرب میں ان کا طرزِ زندگی مشہور تھا، لیکن جب جہاد کیلئے نکل کھڑے ہوئے اور اس مشکل راستے کا انتخاب کرلیا تو ان کا وطن اور یاردوست ان سے ناراض ہوگئے۔ یہاں تک کہ بائیکاٹ کردیا گیا۔ ایک دن دنیا نے شہزادے کو دیکھا وہ پہاڑی علاقے میں ایک بڑے پتھر پر تنہا بیٹھا ہوا ہے اور اس کی چادر کو پیوند لگے ہیں۔ چہرے پر فقروفاقہ کے آثار ہیں۔ علاقہ اجنبی، پُرخطر اور دشوار تھا۔ عرب شہزادے کی یہ حالت دیکھ کر ہمیں حضرت مصعب بن عمیرؓ والی بشارتیں اور صبر واستقامت کی تلقین یاد آنے لگی۔ ہم نے سوچا عرب کا یہ شہزادہ بھی یقیناً ان بشارتوں کا مستحق ہوگا۔ اس نے بھی اسلام کا جھنڈا گرنے نہیں دیا۔ یہاں تک کہ شہید ہوگیا۔ آج اگر چودہ سو سال بعد مصعب بن عمیرؓ دلوں میں زندہ ہیں تو کچھ نسبتیں ہیں۔ آج اگر یمنی شہزادہ بھی لوگوں کے دلوں کی دھڑکن ہے تو کچھ وجوہات ہیں۔ یقیناً یہ عرب شہزادہ اپنے پیش رو کی طرح صدیوں تک لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیگا۔ فلسطینی جانباز یحییٰ سنوار نے زخموں سے چور ٹوٹے ہوئے بازو اور ٹوٹے ہوئے گھٹنے کے ساتھ دوسرے ہاتھ سے ٹوٹی انگلی کیساتھ ڈنڈے سے اسرائیلی ڈرون پر آخری وار کیا۔ آخری دم تک، خون کے آخری قطرے تک اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے شہید ہو گئے اور دنیا کو بتا گئے کہ آدمی گرے تو گرے مگر دینِ اسلام کا جھنڈا نہیں گرنا چاہئے۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے،اس جاں کی کوئی بات نہیں