• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج 24اکتوبر کو بین الاقوامی سفارت کاروں کا عالمی دن منایا جارہا ہے،تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ دورِقدیم کی سلطنتوں سے لے کرآج اکیسویں صدی کی جدید قومی ریاستوں تک خوشگوار تعلقات کا فروغ ہو یا پھر سردمہری، باہمی تنازعات کا حل ہو یا سرحدی کشیدگی،دوطرفہ اقتصادی تعاون کا استحکام ہو یا معاشی پابندیاں کا اطلاق، ہر زمانے میں سفارت کاری نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ جب صحرائے گوبی سے چنگیز خان کی قیادت میں خونخوار منگول اپنے زمانے کی ہر ترقی یافتہ ریاست کو تہہ تیغ کرنے کے درپے تھے توخوارزم شاہ کے شاہی دربارمیں منگول سفیروں کے ساتھ ناروا سلوک نے چنگیز خان کو آگ بگولہ کردیا اور پھر اس نے انتقاماََ وسط ایشیا کی عظیم سلطنت کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا، دوسری طرف پڑوس میں ہندوستان دہلی سلطنت کی کامیاب سفارت کاری کی بدولت منگولوں کے غیض و غضب سے محفوظ رہا۔ آج انٹرنیشنل ڈپلومیٹس ڈے کے موقع پر میں نے فیصلہ کیا کہ دورِ حاضرکی پیچیدہ دنیا میں تیزی سے بدلتے حالات کے پیش نظر عالمی سفارت کاری کی افادیت اور سفارت کاروں کی خدمات کا جائزہ لیا جائے۔تاریخی طور پر پاکستان میں فارن سروس ڈے 17اکتوبر کو منایا جاتا ہے جبکہ بھارت میں 9اکتوبر، روس میں10فروری اور برازیل میں 20اپریل کی تاریخ سفارت کاروں کی اعلیٰ خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے مختص کی گئی، اسی طرح دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے لحاظ سے سفارت کاری کا قومی دن منانے کی روایت قائم ہے، تاہم عالمی سطح پر ایک متفقہ دن بین الاقوامی سفارت کاروں کے نام کرنے کا آئیڈیا ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے سفارت کار ابھے کے نے پیش کیا، ایک انگریزی روزنامہ میں شائع اپنے مضمون میں انہوں نے اپنے خیالات کا اظہاریوں کیا کہ دنیا بھر کے سفارت کار، چاہے انکا تعلق کسی بھی ملک سے ہو،وہ اپنے آپ کو دوسرے ممالک کی سرزمین پر اپنے قومی مفادات کی نگہبانی کیلئے وقف کردیتے ہیں،وہ سفارت کاری کے محاذ پرہر دم سرگرم مختلف دارالحکومتوں میں ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں، ان میں سے کچھ زندگی بھر کے دوست بن جاتے ہیں، طویل فاصلوں کا سفر کرنا سفارت کار کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے، سفارت کاروں کی مصروفیات سے انکے اہلِ خانہ شدید متاثر ہوتے ہیں، بہت سے سفارت کاروں کی شریک حیات کو دنیا بھر میں سفر کرنیکی بنا پر اپنے کیریئر کو دائوپر لگانا پڑتا ہے، سفارت کاروں کے بچے اپنے والدین کی مسلسل بین البراعظمی نقل و حرکت کے نتیجے میں اکثر غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرتے ہیں، سفارت کار وں کے بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔ ابھے نے اپنے مضمون میں زور دیا کہ سماج کی تباہی کا باعث بننے والی خونی جنگ اس وقت شروع ہوتی ہے جب سفارت کاری ناکام ہو جاتی ہے جس ملک کے پاس باصلاحیت اور قابل سفارت کا ر ہوں، اسے کبھی جنگ میں جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ڈپلومیٹس کمیونٹی کو ایک مشترکہ دن منانے کا خیال اتنا بھایا کہ بین الاقوامی سفارت کاروں نے پہلا عالمی دن 24اکتوبر 2017کو برازیل کے دارالحکومت برازیلیا میں منایا جس میں بنگلہ دیش،بھارت، فرانس، گھانا، اٹلی، میکسیکو، جنوبی افریقہ اور ترکی سمیت مختلف ممالک کے سفارت کاروں نے بھرپور شرکت کی جبکہ برازیل، فرانس اور یورپی یونین کے ڈپلومیٹس نے یہ دن مغربی افریقہ کے ملک ٹوگو کے دارالحکومت لومے میں منایا، اگلے برس انٹرنیشنل ڈپلومیٹس ڈے دنیا کے مختلف ممالک کے دارالحکومتوں میں بیک وقت منانے کیلئے مزیدعالمی سفارت کارمتحرک ہوگئے اور مختلف مقامات پر رنگارنگ تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ انٹرنیشنل ڈپلومیٹس ڈے کو عوامی سطح پرعالمی پذیرائی اس وقت حاصل ہوئی جب متحدہ عرب امارات کے عالمی شہر دبئی میں سفارت کاروں کا چوتھا دن نہایت شان و شوکت سے منایا گیا جس میں مشہورعالمی شخصیات سمیت عوام کی بڑی تعداد بھی شریک ہوئی،انٹرنیٹ پر عالمی سفارت کاری کے حق میں سوشل میڈیا پوسٹس کی بھرمار ہوگئی اور لوگوں نے سفارت کاروں کو بھرپور انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا جوپس پردہ رہتے ہوئے عالمی تنازعات کو حل کرنے، دوطرفہ معاہدوں پر گفت و شنید، دیارِغیر میں اپنے شہریوں کے حقوق کے تحفظ اور ڈائیلاگ کی میز پر اپنے ممالک کے مفادات کی نمائندگی کرنے کیلئے انتھک جستجوکرتے ہیں۔مجھے افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ میں نے انٹرنیشنل ڈپلومیٹس ڈے کے حوالے سے انٹرنیٹ پر جتنا بھی مواد کھوجنے کی کوشش کی، مجھے کہیں بھی حکومتی سطح پر پاکستان کی جانب سے یہ عالمی دن منانے کا کوئی قابلِ ذکر مواد نہیں مل سکا،مزید براں فارن سروس آف پاکستان ڈے رواں برس 17اکتوبرکو ایک ایسے اہم موقع پر آیا جب ہمارے وفاقی دارالحکومت میں ایک دن پہلے شنگھائی تعاون تنظیم کا اہم سالانہ اجلاس اختتام پذیر ہوا، تاہم فارن آفس کی جانب سے فقط دوسطری سوشل میڈیا پوسٹ پر ہی اکتفا کرلیا گیا۔ میری نظر میں اکیسویں صدی میں عالمی سفارت کاروں کی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں، آج کے پیچیدہ عالمی منظرنامہ میں کل کے دوست آج کے دشمن کا روپ دھارنے میں دیر نہیں لگاتے، گلوبلائزیشن کے دور میں غیر ریاستی عناصر، دہشت گردی، کلائمیٹ چینج اور سائبر سیکیورٹی کے شدید خدشات کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج دنیا کامیاب سفارت کاری کی جن مہارتوں پر عبور حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے، وہ سیکڑوں سال پہلے ہماری سرزمین ٹیکسلا کے مہان فلسفی کوٹلیا چانکیہ نے اپنی تصانیف ارتھ شاستراور چانکیہ نیتی میں پہلے ہی بیان کردی ہیں،تاہم بدقسمتی سے ہم اپنے تابناک ماضی سے سیکھتے نہیں اور اپنے مستقبل کو روشن بنانے کیلئے کوشش نہیں کرتے،آج انٹرنیشنل ڈپلومیٹس ڈے کے موقع پر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ماضی کی دقیانوسی پالیسیوں کو خیرباد کہتے ہوئے حقیقت پسندانہ رویہ اپنائیں اور اپنی انٹرنیشنل ڈپلومیسی کا محور قائداعظم کے وژن کے مطابق تمام اقوام عالم بالخصوص پڑوسی ممالک سے خوشگوار تعلقات کے فروغ کو بنائیں۔

تازہ ترین