• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عام طور پر زمانۂ طالبِ علمی ہی میں ہم خیال افراد ایک دوسرے سے جُڑتے ہیں اور یک ساں مقصد کی خاطر جدوجہد کا آغاز کرتے ہیں اور پھر بعد ازاں ان کی یہی جدوجہد ایک تحریک کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ طلبہ کی ایک ایسی ہی تحریک نے 1939ء میں چیکوسلواکیہ کے دارالحکومت، پراگ میں جرمنی کے قبضے کے خلاف احتجاج کیا۔ یہ احتجاج دارصل نازی جرمنی کے ظلم و جبر کے خلاف تھا۔ 

اس احتجاجی تحریک کے دوران متعدد طلبہ لقمۂ اجل بنے، سیکڑوں قید ہوئے اور کئی جامعات بند ہوئیں اور پھر 1941ء میں ’’لندن انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس کاؤنسل‘‘ نے ان طلبہ کی قربانیوں کی یاد تازہ کرنے کے لیے ہر سال 17نومبر کو’’ طلبہ کا عالمی یوم‘‘ منانےکا اعلان کیا۔

گو کہ اس تحریک کے دوران کئی انسانی جانیں ضایع ہوئیں، لیکن اس کے نتیجے میں دُنیا بَھر کے طلبہ میں اپنے حقوق کے حوالے سے شعور بیدار ہوا اور بعد ازاں مختلف ممالک میں طلبہ نے اپنے حقوق کے لیے تحاریک بھی چلائیں۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں دُنیا بَھر میں طلبہ تحاریک عروج پر پہنچ گئیں۔ ان تحاریک میں شامل طلبہ نے اس نکتے کو اُجاگر کیا کہ تعلیمی ادارے صرف تعلیم دینے کے مراکز نہیں، بلکہ سماجی تبدیلی کا بھی ایک اہم ذریعہ ہیں۔ 

ذیل میں عالمی سطح پر اور پاکستان میں فعال طلبہ تنظیموں کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔

1960ء کی دہائی میں امریکا میں ویت نام جنگ کے خلاف، 1968ء میں فرانس اور جنوبی افریقا میں نسل پرستی کے خلاف شروع ہونے والی مزاحمتی تحاریک عالمی سطح پر طلبہ کی جدوجہد کی علامت ہیں، جب کہ اس وقت دُنیا بَھر میں متعدد تنظیمیں ماحولیاتی تبدیلیوں، صنفی مساوات اور تعلیمی اصلاحات کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔

مثال کے طور پر ’’فرائیڈے فار فیوچر‘‘ نامی طلبہ تحریک ماحولیاتی تحفّظ کے لیے دُنیا بَھر میں اپنی آواز بلند کرتی ہے۔ یہ تحریک دُنیا بَھر میں اب تک لاکھوں طلبہ کو ماحولیاتی تحفّظ کے لیے متحرّک کر چُکی ہے اس کا مقصد آئندہ نسل کے لیے آلودگی سے پاک ماحول اور ایک صحت مند معاشرے کا قیام ہے۔

پاکستان میں طلبہ کی جدوجہد کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے، تو پتا چلتا ہے کہ یہ تحریکِ پاکستان سے شروع ہوئی کہ جب طلبہ نے قیامِ پاکستان کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور پھر آزادی کے بعد بھی پاکستانی طلبہ نے اہم قومی و سیاسی معاملات میں اپنا کردار ادا کیا۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں طلبہ تنظیمیں پاکستانی سیاست میں اہمیت اختیار کر گئیں۔ ان تنظیموں نے تعلیمی اصلاحات کے حق اور منہگائی سمیت دیگر مسائل کے خلاف بھرپور آواز اُٹھائی۔

اُس دَور میں اسلامی جمعیت طلبہ، نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن جیسی طلبہ تنظیمیں مُلک گیر تحاریک کا حصّہ رہیں۔ 1984ء میں جنرل ضیاء الحق کے دَورِ حکومت میں طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اس فیصلے کا مقصد طلبہ کے سیاسی کردار کو محدود کرنا اور تعلیمی اداروں میں نظم و ضبط برقرار رکھنا تھا، لیکن اس آمرانہ سوچ کے سبب طلبہ کی آزادیٔ اظہارِ رائے پر سنگین اثرات مرتّب ہوئے۔ بعد ازاں،1988ء میں اسٹوڈنٹس یونینز پر سے پابندی ہٹائی گئی، تو طلبہ تنظیمیں دوبارہ فعال ہو گئیں۔

پاکستان میں طلبہ تنظیموں نے کئی اہم سیاسی رہنماؤں کو جنم دیا، جن میں ذوالفقار علی بُھٹّو، نواب زادہ نصراللہ خان، معراج محمد خان، جاوید ہاشمی، اعتزاز احسن، شاہد خاقان عبّاسی، احسن اقبال، محمود خان اچکزئی،سیّد منور حسن اورحافظ نعیم الرحمٰن قابلِ ذکر ہیں۔ سابق وزیرِ اعظم پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی، ذوالفقار علی بُھٹّو نے پاکستانی سیاست پر گہرے نقوش چھوڑے۔ 

وہ اپنے دَورِ طالب علمی میں آل پاکستان مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن (اے پی ایم ایس او) سے منسلک رہے۔ یہ طلبہ تنظیم آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ تھی اور پاکستان کے قیام سے قبل اور بعد میں بھی اس نے طلبہ کے حقوق اور مسلم لیگ کے نظریات کے فروغ کے لیے خدمات انجام دیں۔ ان تمام سیاست دانوں کی سیاسی سرگرمیاں طلبہ کے حقوق کی آواز بننے سے شروع ہوئیں۔ مختصر یہ کہ طلبہ تنظیموں نے جس طرح ماضی میں کئی سیاسی رہنما پیدا کیے، اسی طرح آج بھی قوم کو لیڈرز فراہم کرر ہی ہیں۔

حالیہ برسوں میں طلبہ یک جہتی مارچ اور اس جیسی دیگر سرگرمیوں نے نہ صرف طلبہ کی طاقت اور شعور کو اجاگر کیا بلکہ تعلیمی بجٹ میں اضافے، طلبہ یونینز کی بحالی اور معاشرتی انصاف جیسے مسائل کے حل پر بھی زور دیا۔ یوں بھی طلبہ تنظیمیں ہمیشہ ہی سے نوجوانوں کے سیاسی، سماجی اور تعلیمی شعور کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں ۔ نیز، تعلیمی اداروں میں آزادیٔ اظہارِ رائے، قائدانہ صلاحیتوں کی نشوونما اور اجتماعی مفاد کی جدوجہد کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔ 

ضرورت اس اَمر کی ہے کہ مزید ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے طلبہ تنظیموں کو نوجوانوں کی مناسب رہنمائی ، نظامِ تعلیم کی بہتری اور معاشرتی ہم آہنگی کے لیے بھی کام کرنا چاہیے اور انہیں معاشرتی، اقتصادی، اور ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرنا چاہیے، تاکہ وہ نہ صرف اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر سکیں، بلکہ مُلک و قوم کی تعمیر میں بھی مؤثر کردار ادا کر یں۔

سنڈے میگزین سے مزید