• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ماہ ایک کالم میں یہاں رائج اعتماد کی اقسام اور انہیں ٹھیس پہنچانے کے طریقوں پر بات کی گئی ، نیز باقی اقسام آئندہ بیان کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا ۔ آج یہ وعدہ وفا کیا جاتا ہے ۔
نمائندوں پر اعتماد:یہ عوام کا اپنے کسی نمائندے پر اعتماد ہے ، جس کی بنا پر وہ اسے اپنے قیمتی ووٹوں کے ذریعے منتخب کرتے ہیں ۔ جواب میں نمائندہ ان ووٹروں کے لئے ٹکے کا کام نہیں کرتا اور یوں ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔ تاہم عوام کا اعتماد اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں پھر اسی کو ووٹ دیتے ہیں ۔ ایسے ہی ایک ممبر اسمبلی سے کسی نے پوچھا کہ تم ہر بار انہیں ہی کیوں دھوکہ دیتے ہو ، جو تمہیں منتخب کرتے ہیں ؟ اس نے کہا ’’وہی تو اس کا موقع عنایت کرتے ہیں‘‘۔
ایمپائرکی انگلی پر اعتماد: بعض لوگوں کو اپنی انگلی پر اتنا اعتماد نہیں ہوتا ،جتنا انہیں ایمپائر کی انگلی پر ہوتا ہے کہ وہ ضرور اٹھے گی ۔ اسی اعتماد کے بھروسے پر وہ احتجاجی سیاست ، دھرنے ، ریلیاں اور جلسے جلوس وغیرہ جیسے اعمال بجا لاتے ہیں ۔ اس اعتماد کے سہارے کئی زبانیں تو کنٹینروں اور میڈیا پر گلے پھاڑ اپیلیں کرتے سوکھ جاتی ہیں ، مگر ایمپائر ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہوئے انگلی نہیں اٹھاتا۔ البتہ ان کی سیاست پر انگلیاں اٹھتی رہتی ہیں ۔تاہم ان کا اعتماد کبھی نہیں ڈگمگاتا اور وہ تازہ دم ہوکر ایسی غلط اپیلیں جاری رکھتے ہیں کہ اسی در سے انہیں خیرات کی آس ہوتی ہے ، عوامی درگاہ تو انہیں لفٹ نہیں کراتی ۔ کبھی جب ان پیشہ ور اپیل کنندگان کی محنت رنگ لاتی ہے اور ایمپائر اپنی انگلی اٹھا دیتا ہے تو ملک کی تینوں وکٹیں یعنی مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ گر جاتی ہیں ۔ اسی کے ساتھ ریاست کی ساکھ سے لے کر اسٹاک ایکسچینج تک ہر چیز بھی زمین بوس ہو جاتی ہے اور اس خوشی میں اپیل کنندگان مذکور مٹھائیاں بانٹتے ہیں ۔ ابھی حال ہی میں ایک برادر اسلامی ملک میں ایمپائر نے ایک کمزور اور غلط اپیل پر انگلی اٹھا دی مگر عوام نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کردیا ۔ اگر اس ایمپائر کے ساتھ میڈیا کے ہمارے جیسے کچھ بقراط ہوتے تو شاید اسے کچھ سہارا ملتا۔
تجزیہ نگاروں پر اعتماد:عام لوگوں کا اوپر بیان کئے گئے برانڈ کے بقراطی تجزیہ نگاروں اور رہنمائوں پر اعتماد ہوتا ہے ، جو ہر دم الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر ’’ملک نازک ترین دور سے گزر رہا ہے ‘‘ کے دیپک راگ چھیڑ کر ایمپائر کی انگلی اٹھنے کی تاریخیں دیتے رہتے ہیں ۔ اصل میں وہ حالات نہیں بلکہ اپنی خواہشات کی روشنی میں تجزیہ کرتے ہیں ۔ جب ان تجزیہ نگارطوطوں کی فالیں غلط ثابت ہوتی ہیں تو وہ بالکل شرمندہ نہیں ہوتے ۔ البتہ ان کے تجزیوں پر یقین کرنے والوں کے اعتماد کو ضرور ٹھیس پہنچتی ہے ۔ کچھ لوگ ایسے بقراطوں کے ان فاسد خیالات پر بھی اعتما دکر بیٹھتے ہیں کہ ملک میں یورپ کی غلیظ تہذیب میں لتھڑا فحاشی ، عریانی اور بے حیائی کا سیلاب ٹھاٹھیں مار رہا ہے ۔ اعتماد کرنے والے اس سیلاب میں ڈبکیاں مارنے کی حسرت لے کر باہر نکلتے ہیں مگر معاشرے میں انہیں فقط ٹھگی ، دونمبری ، فراڈ، جھوٹ ، ملاوٹ، غربت، غلاظت ، جہالت، انتہا پسندی اور نا انصافی کے ٹھاٹھیں مارتے دریا اور بارش سے آنے والے سیلاب میں بے یارومددگار مخلوق خدا بہتی نظر آتی ہے تو ان کے اس اعتما دکو سخت ٹھیس پہنچتی ہے ۔ اصل میں یہ فحاشی ،عریانی اور بے حیائی فقط ان تجزیہ نگاروں کے زرخیز ذہنوں کی پیداوار ہوتی ہے ۔
دکھاوے کا اعتماد:یہ ریاست کے ستونوں کے درمیان مضبوط ترین باہمی اعتماد ہے ۔ اسے دکھاوے کا اعتماد اس لئے کہا جاتا ہے کہ اسے دکھایا اور دہرایا بہت جاتا ہے تاکہ عوام کا حوصلہ بلند رہے ۔ جیسے آپ ہر روز اکابرین حکومت کی زبانی سنتے ہیں کہ حکومت اور فوج ایک ہی صفحے پر ہیں ۔ بلاشبہ حقیقت بھی یہی ہے کہ ملکی استحکام اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے حکومت، فوج اور عدلیہ ایک ہی صفحے پر ہیں ، جو کسی نامعلوم کتاب کا بڑا ہی بابرکت صفحہ ہے ۔ اس اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کاہنوز کوئی طریقہ ایجاد نہیں ہوا۔ چراغ لے کر بھی ڈھونڈو تو اس اعتماد میں فقدان نہیں ملتا۔
محبت پر اعتماد:کبوتر میل اور قاصد کے پرانے دور کے برعکس آج کے ای میل اور واٹس ایپ کے دور نے اس اعتماد کو خاصی وسعت بخشی ہے ۔ البتہ اس اعتماد کو ٹھیس پہنچنے کا عمل نہیں روک سکا۔ آج کا وہ عاشق، جس کے دل میں جا بجا اتنے زنانہ ٹینٹ لگے ہیں کہ مہاجر کیمپ کا گماں گزرتا ہے ، اگر اس کا بھی کوئی ایک آدھ محبوب کسی تگڑی اسامی کوتاڑ کر کانٹا بدل لے تو عاشق کے اعتماد کو فوراً ٹھیس پہنچ جاتی ہے ۔
اندھا اعتماد:یہ ہم لوگوں کا عطائیوں، قصائیوں ، ڈبل شاہوں، جادو ٹونہ اورتعویذ گنڈوں وغیرہ کے ذریعے علاج معالجہ اور دیگر مسائل حل کرنے والوں پر اعتماد ہے ۔ جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے کہ اس اعتماد کی آنکھیں نہیں ہوتیں ، لہذا یہ اعتماد دن میں کئی مرتبہ ٹھوکریں کھاکر منہ کے بل گرتا ہے ۔ یہ اعتماد نابینا ضرور ہے مگر کھوکھلا ہر گز نہیں کہ اس میں دراڑآ جائے اور جعل سازوں کی دکانیں بند ہو جائیں ۔ کبھی کبھار ذرا زور سے منہ کے بل گرنے پر اس اعتما دکو ٹھیس ضرور پہنچتی ہے، جب کوآپریٹو اسکینڈل کے بادشاہ، مضاربہا سکینڈل کے شہنشاہ یا ڈبل شاہ ہماری جمع پونجی لوٹ کر فرار ہو جاتے ہیں یا عطائیوں وغیرہ کے ہاتھوں اموات زیادہ ہو جاتی ہیں ، مگر چوٹ مندمل ہو تے ہی یہ اعتماد بحال ہو جاتا ہے اور ہم لٹنے اور مرنے کے لئے پھر سے کمر کس لیتے ہیں۔
انصاف پر اعتماد:یہ انصاف کے ایوانوں پر عوام کا اعتماد ہے ۔ لوگ اپنا قانونی حق حاصل کرنے کے لئے اسی اعتماد کے سہارے عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں ۔ پھر جب کچہری کی سیاحی میں ان کی عمریں گزر جاتی ہیں اور سائلان قبر کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں تو ان کے انصاف پر اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے ۔ حالانکہ انہیں مایوس ہونے کی بجائے انتظار کرنا چاہئے کیونکہ انصاف بیساکھیوں کے سہارے کچھوے کی رفتار سے مسلسل ان کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے ۔
غیرت مندوں پر اعتماد:یہ اعتماد کسی ایسی خاتون کا اپنے غیرت مند بھائی ، والد، چچا یا ماموں وغیرہ پر ہوتا ہے ، جو معاشرتی روایات سے بغاوت کر کے اپنی مرضی کی زندگی گزارنے گھر سے نکل کھڑی ہوتی ہے ۔ اس اعتماد کی حامل خاتون جب ایسے غیرت مند حضرات پر بھروسہ کر کے ان کے ہاتھ لگ جاتی ہے تو وہ اس کا گلا دبا کر ، زندہ جلا کر، زندہ دفنا کر یا گولیوں کی بوچھاڑ کر کے اسے مار دیتے ہیں ۔جب قندیل بلوچیں اپنے کسی پیارے کے ہاتھوں قتل ہو رہی ہوتی ہیں توان کے اعتماد کو جو تکلیف دہ ٹھیس پہنچتی ہے ،اسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ۔
دیانت داری پر اعتماد:یہ عوام کا کسی سرکاری دفتر کے اہلکار یا آفیسر پر اعتما دہے کہ وہ رشوت لے کر پوری دیانتداری سے اس کا کام کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ رشوت کی ادائیگی کی کوئی رسید وغیرہ طلب نہیں جاتی ۔ یہ اعتماد کی دوسری قسم ہے ،جسے ٹھیس نہیں پہنچتی۔
کھوکھلا اعتماد:یہ اعتماد کی وہ واحد قسم ہے ، جو ہمارے برگزیدہ و پاکیزہ معاشرے میں رائج نہیں ۔ جب ایک قسم رائج ہی نہیں تو اسے ٹھیس پہنچانے کا طریقہ کہاں سے آئے گا؟
تازہ ترین