• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین! مشرقِ وسطیٰ میں ہلچل اور تبدیلیوں کا سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس سلسلے میں اہم ترین پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ چند روز پہلے شامی صدر بشار الاسد کا 24سالہ اقتدار ختم ہوگیا ۔ وہ دارالحکومت دمشق سے اپنے اہل خانہ سمیت فرار ہو کر روس پہنچ گئے۔ باغیوں نے دمشق پر قبضہ کرنے کے بعد حمص جیل سے 3500 قیدی چھوڑ دیے۔ دمشق کے قریب واقع جیل سے بھی ہزاروں قیدی رہا کر دیے گئے۔ ان میں بدنام زمانہ صیدیانا جیل سے بچوں اور خواتین کی رہائی کی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے۔ باغی سرکاری ٹی وی، ریڈیو اور وزارت دفاع کی عمارتوں میں داخل ہو گئے۔ سرکاری فوج کی جانب سے علاقہ چھوڑنے پر لوگوں نے دمشق کے مرکز میں واقع امیر چوک اور سڑکوں پر جشن منایا اور آزادی کے نعرے لگائے۔ دوسری جانب، شام کے وزیر اعظم محمد غازی الجلالی نے غیرملکی میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے گھر میں موجود ہیں اور عوام کی منتخب کردہ کسی بھی جماعت کے ساتھ تعاون کیلئے دستیاب ہیں۔ ادھر، شامی باغیوں نے دارالحکومت پر قبضے کے بعد سرکاری ٹی وی پر پہلے ہی خطاب میں تمام قیدیوں کیلئے عام معافی کا اعلان کیا ہے۔ باغیوں نے آزاد شام کی خود مختاری اور سالمیت کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ شام میں سیاہ دور کا خاتمہ ہونےکے بعد نیا عہد شروع ہونے جا رہا ہے۔ شام کی تمام سرکاری، غیر سرکاری املاک اور تنصیبات کا تحفظ کیا جائے گا۔ شامی باغی گروپ تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے سابق شامی سرکاری فوج اور عوام کیلئے ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ عوام اور سابق حکومت کے فوجی سرکاری اداروں سے دور رہیں۔ نیز ’’ہیئت التحریر الشام‘‘ کے سربراہ محمد الجولانی نے کہا ہے کہ نئے انتخابات تک شام میں عبوری حکومت کی قیادت وزیر اعظم محمد غازی الجلالی کریں گے۔ شام کی صورتحال پر دوحہ فورم کے اجلاس میں قطر، سعودی عرب،اردن ،مصر ،عراق ،ایران، ترکیہ اور روس نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ شام کی موجودہ صورتحال علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کیلئے خطرناک ہے۔ فوجی آپریشنز روک کر شہریوں کی حفاظت کیلئے سیاسی حل نکالا جائے۔یہ طاقت کا توازن بگاڑنے اور گرائونڈ پر صورتحال تبدیل کرنے کی کوشش ہے ،ہم باغی گروہ کی پیش قدمی کی مخالفت کریں گے ۔دوسری جانب نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ شام امریکہ کا دوست نہیں، امریکہ کا شام کے تنازع سے کوئی لینا دینا بھی نہیں ،ہمیں اس میں شامل نہیں ہونا چاہئے ۔اِدھر مدارس کی رجسٹریشن کے معاملے پر نیا تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔ایک طرف جے یوآئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن مدارس رجسٹریشن بل کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد ایوان صدر سے اعتراضات کے ساتھ واپسی پر برہم ہیں ۔اس بل کے تحت مدارس کو سوسائٹیز ایکٹ کے تحت پرانے طریقہ کار سے رجسٹرڈ کرنے کی بات کی گئی ہے تو دوسری جانب حکومت کا اصرار ہے کہ 2019کے اس معاہدے پر عمل در آمد کرتے ہوئے مدارس کی رجسٹریشن وزارت تعلیم کے تحت کی جائے ،یعنی رجسٹریشن کے موجودہ طریقہ کار کو بر قرار رکھا جائے ۔حکومت نے مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ 3روز قبل مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات میں انہیں ہدایت کی تھی کہ مدارس بل کے حوالے سے مولانا کے تحفظات دور کئے جائیں جس کے بعد پشاور میں جے یو آئی کے کنونشن کے دوران مولانا فضل الرحمن نے اگرچہ مطالبے پر عمل در آمد نہ ہونے کی صورت میں حکومت کو سخت ردعمل سے خبر دار کیا تاہم انہوں نے اسلام آباد کی طرف مارچ جیسے حتمی اقدام کا اعلان نہیں کیا اور اسے 17دسمبر کو اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے صدر مفتی تقی عثمانی کی جانب سے بلائے جانے والے اجلاس تک موخر کر دیا تاہم حکومت نے گزشتہ روز اپنے موقف کے حامی علمائے کرام اور مدارس کے مہتمم کی کانفرنس بلا کر گویا یہ پیغام دیا کہ مدارس کی تنظیمات کا ایک بڑا حصہ مولانا فضل الرحمن کے برعکس موقف رکھتا ہے ۔جس پر مولانا نے اجلاس سے قبل ہی چار سدہ میں پریس کانفرنس کر کے ایک بار پھر اپنے پرانے موقف کو دہرایا اور حکومت پر الزام لگایا کہ وہ مدارس کے رجسٹریشن کے معاملے پر علماء کو باہم لڑانے کی سازش کر رہی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ جب مدارس رجسٹریشن بل پر طویل مذاکرات اور غور وخوض کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے رضامندی ظاہر کردی تھی جس کے بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے حکومت کی حمایت کے ساتھ 26ویں ترمیم کی طرح سوسائٹیز ایکٹ ترمیمی بل 2020بھی منظور کرایا گیا تو اب ایوان صدر سے اعتراض لگا کر نیا پنڈورا باکس کیوں کھولا جا رہا ہے ۔ دوسری طرف حکومت کے طلب کردہ اجلاس میں مولانا طاہر اشرفی نے قدرے جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے مدارس میں گروپنگ کے تاثر کو تقویت دی ۔ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی 10ہزار افراد لاکر اپنا مطالبہ منوانے کی کوشش کر سکتا ہے تو ہم بھی بڑی افرادی قوت رکھتے ہیں اور 5،6لاکھ لوگ لاسکتے ہیں ۔ حکومت کا یہ موقف قابل فہم ہے کہ 18ہزار سے زائد مدارس وزارت تعلیم کے ماتحت اتھارٹی کے ذریعے رجسٹرڈ ہو چکے ہیں اور پھر 2019کے معاہدے پر مدارس کے تمام سربراہوں نے بخوشی دستخط کئے تھے ۔بہتر یہی ہوگا کہ دینی قوتوں میں تقسیم کا تاثر گہرانہ ہونے دیا جائے اور مدارس کی رجسٹریشن کے معاملے کو تدبر اور افہام و تفہیم کے ساتھ حل کر لیا جائے۔ اس کیلئے دونوں فریقوں کو اپنا دامن کشادہ کرنا ہو گا۔

تازہ ترین