پیر 16 دسمبر کو 2014 کے اس المناک سانحے کو دس سال مکمل ہوگئے جب آرمی پبلک اسکول پشاور میں سفاک دہشت گردوں نے آتشیں اسلحہ سے حملہ کرکے 144معصوم بچے شہید کردیے تھے۔اس المناک واقعے کی یاد پورے ملک میں منائی گئی۔ساتھ ہی اس حساس اطلاع کے پیش نظر لاہور،راولپنڈی اور اسلام آباد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چوکس کردیا گیا کہ اے پی ایس کی طرز پر دہشت گردی کی نئی کارروائی کا خطرہ ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے اس موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ہم اس سانحہ کو نہ بھولیں گے اور نہ اس کے ذمہ داروں کو معاف کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ فتنہ الخوارج اور ان جیسے دوسرے دہشت گرد ملک دشمن گروہوں کا دین اسلام سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہماری معاشرتی اقدار سے۔ہماری بہادر افواج پوری ہمت اور جوانمردی سے ان کے خلاف نبردآزما ہیں۔انھوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ سانحہ اے پی ایس جیسے ظلم اور بربریت کے ذمہ داروں کو کڑی سزائیں دلائی جائیں گی،تاکہ آئندہ قوم کو ان سے کوئی نقصان نہ پہنچے۔پاک فوج اور دوسری فورسز دہشت گردوں اورانھیں مالی وسائل مہیا کرنے والےعناصر کی مذموم سرگرمیاں روکنے کیلئے سخت اقدامات کے ذریعے جو غیر معمولی کامیابیاں حاصل کررہی ہیں،امریکہ نے بھی ان کی ستائش کی ہے۔امریکی محکمہ خارجہ نے اس ہفتے اپنی رپورٹ میں پاکستان میں 2023سے ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں اضافے کا حوالہ دیتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمےاور انتہا پسندی کا نیٹ ورک توڑنے اور منی لانڈرنگ کے ذریعے دہشت گردوں کی اعانت روکنے میں سیکورٹی فورسز کی کامیابیوں اور انھیں ملک کی داخلی سلامتی اور علاقائی استحکام کیلئے نہایت خوش آئند قرار دیا ہے۔رپورٹ میں 87دہشت گرد تنظیموں کے پاکستان میں سرگرم ہونے کے بارے میں بتایا گیا جن میں سے 41گروہ اب بھی فعال ہیں۔ساتھ ہی اس بات کی تعریف کی گئی کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں غیرممالک کی جنگوں میں حصہ لینے والے پاکستانیوں کو واپس وطن آنے پر قانون کی گرفت میں لیا جارہا ہے،منی لانڈرنگ اور افغان سرحد سے رقوم کی غیرقانونی منتقلی کو روکا جارہا ہے اور فارن ایکس چینج قوانین اور ضوابط پر سختی سے عمل درآمد ہورہا ہے۔رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ دہشت گردوں کی مالی اعانت کی روک تھام کے باوجود 2022کے مقابلے میں 2023میں دہشت گردوں کےحملوں میں 50فیصد اضافہ ہوا ہے،جن میں شہریوں اور سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مقامی داعش کی طرف سے دھماکے اور چھوٹے ہتھیاروں سے حملے کیے گئے۔رپورٹ میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کے معاملے پر تشویش ظاہر کی گئی۔یہ بھی بتایا گیا کہ پی ٹی آئی نے امریکہ سے پاکستان پر پابندیوں کا مطالبہ کیا ،جسے امریکہ نےاس موقف کے ساتھ رد کردیا کہ انسداد دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات اس کی بنیادی ترجیح ہیں اور اس معاملے میں بین الاقوامی برادری کی حمایت بھی پاکستان کو حاصل ہے۔سانحہ اے پی ایس کے حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف کا دہشت گردی کچلنے کا دلیرانہ عزم وقت کی ضرورت اور دہشت گردوں اور ان کے مالیاتی سرپرستوں کی منی لانڈرنگ کے ذریعے اعانت کے بارے میں امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ پاکستان کے استحکام کے ضمن میں گہرے غوروفکر کی متقاضی ہے۔اس حوالے سے اطمینان کی بات یہ ہے کہ امریکہ اور عالمی برادری دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات کی حمایت کررہے ہیں۔پاکستان کے عوام اپنی سیکورٹی فورسز کی پشت پر ہیں اسلئے توقع رکھنی چاہئے کہ دہشت گردی کا ناسور جڑ سے اکھاڑ پھینکاجائےگا۔