وفاقی حکومت ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے تسلسل سے جو اقدامات کر رہی ہے ان کی بدولت تجارتی خسارے ،افراط زر اور مہنگائی میں کمی کے رحجانات کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مسلسل پانچویں بار پالیسی ریٹ یعنی شرح سود میں دو فیصد کمی کر دی ہے جس سے یہ شرح پندرہ فیصد سے کم ہو کر تیرہ فیصد پر آ گئی ہے اور کاروباری طبقات کیلئے شرح منافع میں اتنا ہی اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ معاشی بحالی کی سمت میں ایک خوش آئند اور مستحسن اقدام ہے جس کا ملک بھر میں خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مالیاتی کمیٹی کے فیصلے کے مطابق جس کا اعلان بینک کے گورنر جمیل احمد نے کیا پالیسی ریٹ میں کمی سے سود کی ادائیلی میں ڈیڑھ ہزار ارب روپے کی بچت ہو گی۔ گورنر کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی شرح نومبر میں گھٹ کر 4.9 فیصد ہو گئی۔ جاری تجارتی کھاتہ اکتوبر میں مسلسل تیسری بار فاضل رہا جس سے زر مبادلہ کے ذخائر بڑھ کر بارہ ارب ڈالر ہو گئے اور ان میں اضافہ ابھی جاری ہے۔ معاشی ترقی کی رفتار میں بھی تیزی ریکارڈ کی گئی۔ نومبر 2024میں نجی شعبے کو قرضوں کے اجرا میں اضافہ ہوا توقع ہے کہ آنے والے دنوں میں شرح سود میں مزید کمی آئیگی۔ مہنگائی میں کمی کی بڑی وجہ غذائی اشیا کی قیمتوں میں مسلسل کمی ہے۔ اجناس کی عالمی قیمتوں میں عمومی استحکام سے درآمدی بل پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ صنعتی شعبے کی سرگرمیوں کی رفتار بھی مزید بڑھی ہے۔ برآمدات میں 8.7 فیصد اضافہ ہوا ہے جس میں بڑا حصہ ٹیکسٹائل ،چاول اور پٹرولیم کی برآمدات کا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے شرح منافع میں اضافہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھے گا اور معاشی نمو کو تقویت ملے گی۔ انہوں نے معیشت کی بحالی کے حوالے سے وفاقی وزیر خزانہ اور ان کی معاشی ٹیم کی کوششوں کی تحسین کی۔ پالیسی ریٹ میں کمی کے اسٹاک مارکیٹ پر بھی مثبت اثرات دیکھے گئے۔ انڈیکس میں 1868پوائنٹس کا اضافہ ہو گیا۔ 50.51فیصد کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت بڑھ گئی اور غیر یقینی صورتحال میں کمی آئی۔ سرمایہ کاری مالیت 224 ارب روپے سے زیادہ ہو گئی۔ اس سال ترسیلات زر 35ارب ڈالر سے زیادہ ہونے کی توقع ہے۔ تیل کی قیمت میں کمی سے ایک ارب ڈالر کی بچت ہو رہی ہے اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات ختم ہو گئی ہیں تا ہم سالانہ مالیاتی اہداف حاصل کرنے کیلئے اضافی اقدامات کرنا ہوں گے جس کے لئے تمام کوششیں بروئے کار لائی جا رہی ہیں اس حوالے سے ایف بی آر کے محاصل میں سال بہ سال23فیصد اضافہ اہم مگر سالانہ ہدف حاصل کرنے کیلئے درکار شرح کم ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ بنیادی افراط زر نیچے آنے تک خدشات برقرار رہیں گے۔ مہنگائی تین چار ما ہ کم رہنے کی توقع ہے مگر اس کے بعد اس میں اضافہ ہو گا۔ پالیسی ریٹ کم ہونے سے سرمایہ کاروں کی شرح منافع میں اضافہ ہو گا جس سے معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی تا ہم کاروباری طبقات شرح منافع میں5 فیصد اضافے کی توقع کر رہے تھے جو پوری نہیں ہوئی۔ ان کی رائے میں پالیسی ریٹ 10 فیصد تک کم ہونا چاہئے تھا۔ لیکن ملک کی مجموعی معاشی صورتحال ایک ہی مرحلے میں اتنی کمی کی متحمل نہیں ہو سکتی اس کیلئے تدریجی اقدامات کی ضرورت ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ معاشی بحران پر قابو پانے کی موجودہ رفتار جاری رہی تو پالیسی ریٹ میں مزید کمی کا وقت زیادہ دور نہیں۔ تا ہم اس کیلئے حکومت کو محتاط معاشی اقدامات اٹھانا ہونگے اور اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ مالیاتی وسائل بڑھانے کیلئے مزید ٹیکس نہ لگائے جائیں جن کا زیادہ تر بوجھ بالآخر عام آدمی پر ہی پڑتا ہے جو پہلے ہی مشکل سے گزر اوقات کر رہا ہے۔