ملک بھر کے 143اضلاع میں سال 2024ء کی آخری انسداد پولیو مہم پیر 16دسمبر سے شروع ہوچکی ہے۔ اس سات روزہ مہم کا مقصد پانچ سال تک کی عمر کے تمام بچوں (چار کروڑ سے زیادہ) کو پولیو کے قطرے پلانا ہے تاکہ اس برس 64کیسز کی تعداد تک پہنچ جانے والے موذی مرض پولیو کے پھیلائو کوروکا جاسکے۔ اس مہم کے پہلے ہی روز خیبرپختونخوا کے علاقوں صوابی، بنوں، شکر خیل میں پولیو ٹیموں پر نامعلوم افراد کی فائرنگ کی صورت میں پاکستان دشمن قوتوں کا یہ پیغام سامنے آیا ہے کہ وہ وطن عزیز میں پولیو کا پھیلائو روکنے کی کوششیں ناکام بنانے پر تلی ہوئی ہیں۔ مذکورہ واقعات میں دو پولیس کانسٹیبلوں اور ایک پولیو ورکر کی شہادت نے ایک طرف پوری قوم کو سوگوار کر دیا ، دوسری جانب اس کا یہ عزم مزید نمایاں ہوا ہےکہ وطن عزیز کو پولیو کے پھیلائو سے روکنے کی بھرپور کوشش کے ساتھ دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کا عمل تیز کیا جائے۔ صدر مملکت آصف زرداری، وزیراعظم شہباز شریف سمیت مختلف رہنمائوں کے بیانات پوری قوم کی اس کیفیت کی نمائندگی کرتے ہیں جو مذکورہ واقعات کے حوالے سے محسوس کی جارہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیو مہم ہی نہیں، ہر حوالے سے مفّوضہ فرائض انجام دینے والوں کی حفاظت کے اقدامات زیادہ موثر بنائے جائیں اور وارداتوں میں شامل افراد کے علاوہ انکے سہولت کاروں کو جلدکیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ ان قوتوں کو ٹھوس شواہد کیساتھ دنیا کے سامنے باربار بے نقاب کیا جانا چاہئےجو پاکستان میں دہشت گردی کی پشت پناہ ہیں۔ عرصہ سے پاکستان میں انسداد پولیو مہمات کے دوران سامنے آنے والے اندوہناک واقعات ایسی گہری سازش کی نشاندہی کرتے ہیں جس کے شواہد دنیا کے سامنے لائے جانے چاہئیں جبکہ ملک کو درپیش چیلنج متقاضی ہیں اس بات کے، کہ داخلی اختلافات پس پشت ڈا ل کر تمام سیاسی پارٹیاں مشترکہ میثاق پر اتفاق رائے کے ساتھ مل جل کر کام کریں۔