کئی برس سے لاغری کی کیفیت سے دوچار پاکستانی معیشت کے بحالی کی سمت بڑھنے کے اشارے اگرچہ واضح ہیں مگر اُس منزل پر پہنچنے میں وقت لگے گا جہاں پہنچ کر صورتحال کو تسلی بخش کہا جاسکے۔ معیشت کا بیرومیٹر کہلانے والے اسٹاک ایکسچینج میں اتار چڑھائو کو حکومتی فیصلوں، سیاسی صورتحال، بین الاقوامی منظر نامہ سمیت متعدد امور کا نتیجہ سمجھا جاتا اور درست طور پر کہا جاتا ہے کہ حصص بازار کی کارکردگی سے معیشت صحیح راستے پر ہونے یا نہ ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ حقیقت بہرطور ارباب حکومت ہی نہیں، اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتوں اور ماہرین معیشت کے پیش نظر رہنی چاہئے کہ کسی ملک کی معیشت کی لاغری و استحکام اور اسکی سمت کی درستی و نادرستی کا حقیقی پیمانہ اس ملک کے لوگوں کی معاشی کیفیت، مواقع روزگار، اشیائے ضٗروریہ (خصوصاً کھانے پینے کی چیزوں) کے نرخ ہیں۔ معیشت کی متعدد جہتوں میں بعض اوقات ایک پہلو میں بہتری پر زیادہ زور دوسرے پہلو میں کمزوری کا سبب بن جاتا ہے۔ معاشی منتظمین کو تمام چیزوں میں توازن برقرار رکھتے ہوئے آگے کا سفر جاری رکھنا ہوتا ہے۔ قرضٗوں، مالیاتی اداروں کی شرائط کے شکنجوں، بھاری ٹیکسوں، بیروزگاری کے عذاب سے دوچار متوسط اور نچلے طبقے کے لوگوں کیلئے یہ سمجھنا آسان نہیں کہ لگاتار چوتھے کرنٹ اکائونٹ میں سرپلس کی صورتحال کا نظر آناان کیلئے اچھے دنوں کی نوید ہے۔ تاہم مرکزی بینک کے منگل کے روز جاری اعدادوشمار سے سامنے آنے والی یہ حقیقت سب کے لئے حوصلہ افزا ہونی چاہئے کہ نومبر 2020ء میں پاکستان نے تقریباً دس برسوں کے دوران میں ماہانہ کرنٹ اکائونٹ کھاتوں میں 72کروڑ 96لاکھ ڈالر کی سرپلس سطح حاصل کی ہے۔ یہ سطح فروری 2015ء سے اب تک کی بلند ترین سطح ہے جبکہ گزشتہ سال کی اسی مدت میں 14کروڑ 80لاکھ ڈالر کا خسارہ تھا۔ اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پانچ ماہ میں پاکستان کی بیرونی وصولیاں ساڑھے 15ارب ڈالرز ہیں جو گئے برس کے ابتدائی پانچ مہینوں سے 33فیصد زائد ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق کرنٹ اکائونٹ خسارے کو کم کرنے میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات نے اہم کردار ادا کیا ۔ وزیراعظم شہباز شریف ان اعدادو شمار پر اطمینان کے اظہار میں یقیناً حق بجانب ہیں مگر زیادہ اطمینان بخش صورتحال وہ ہوگی جب وطن عزیز کی دوسرے ملکوں سے تجارت بذات خود کرنٹ اکائونٹ میں سرپلس لانے کا ذریعہ بنے۔ ترسیلات زر کی صورت میں آنے والی رقم اس پر مستزاد ہو۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی اس قوم کا وہ سرمایہ ہیں جو ترسیلاب زر کے ذریعے ملکی معیشت کو سہارا دیئے ہوئے ہیں۔ ان کی نہ صرف قدر کی جانی چاہئے بلکہ اندرون ملک ان کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے، ملک بھر میں تعلیمی معیار اور فیسیں وغیرہ اس مقام پر رکھنے کی سعی کی جانی چاہئے جو نہ صرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے پُرکشش ہو بلکہ دوسرے ممالک کے لوگوں کو بھی متوجہ کرنے کا ذریعہ بنیں۔ یہ بات بھی پیش نظر رکھنے کی ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو اندرون ملک سیاسی کشمکش میں گھسیٹنے سے گریز ہی ملکی مفاد کا تقاضا ہے۔ اس باب میں حکومت اپوزیشن مذاکرات کے ذریعے اعتماد کی فضا قائم کی جانی ضروری ہے۔ حکومتی سطح پر یہ نکتہ پیش نظر رہنا ضروری ہے کہ ملکی معیشت بحال کرنے کے نام پر پہلے سے پسے ہوئے غریبوں سے قربانی طلب کرنا احسن نہیں۔ اب قربانی وسائل پر قابض اس طبقے سے طلب کی جانی چاہئے جو ہر قسم کی مراعات لینے کے باوجود قیام پاکستان کے وقت سے اب تک ٹیکس گریزی کی روش پر قائم ہے۔ ٹیکسوں کا حصول ریاست کا حق ہے مگر محاصل کا بوجھ امیروں پر ڈالا جانا اور غریبوں کی فلاح پر محاصل کا خرچ کرنا ہی کسی ملک کے معاشی نظام کے منصفانہ ہونے کا حقیقی پیمانہ ہے۔