پاکستان کے میزائل پروگرام سے متعلق واشنگٹن کی مزید پابندیوں کے حوالے سے اسلام آباد کا ردعمل اس پرانے موقف کے عین مطابق ہے کہ پاکستان کی اسٹرٹیجک صلاحیت اسکی علاقائی خودمختاری کے دفاع کی ضرورت ہے اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام برقرار رکھنے کا ذریعہ بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ دفاعی اعتبار سے کمزور ملک ہمسایوں سمیت دیگر طاقتور ملکوں کیلئے چارہ بن جاتا ہے جس پر جھپٹ پڑنے کی ترغیب کی روک تھام کا بڑا ذریعہ اس ملک کی اسٹرٹیجک صلاحیت ہے۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں بعض ملکوں کی حربی کمزوری ان پر دوسرے ملکوں کی یلغار اور تسلط کا ذریعہ بنی۔ پاکستان کو اپنے قیام کے وقت سے بقا و سلامتی کے جن چیلنجوں کا سامنا رہا ہے انکے پیش نظر اسے امریکہ کے قیادت و سرپرستی میں ہونیوالے بغداد پیکٹ، سیٹو اور سینٹو معاہدوں میں شمولیت سے لیکر جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کے انبار جمع ہونے سےپیدا ہونیوالے طاقت کے عدم توازن کی روک تھام سمیت کئی امور پر توجہ دینا پڑی۔ پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا ہتھیاروں کی دوڑ میں توازن برقرار رکھنے کی ایسی حکمت عملی کا حصہ تھاجو توسیع پسندی و مہم جوئی کے اس سلسلے کی روک تھام کا ذریعہ بنی جو چار جنگوں کی صورت میں سامنے آیا اور پاکستان سے الحاق کرنے والی ریاستوں حیدرآباد، جونا گڑھ، مانا ودر سے لیکر مشرقی پاکستان کے سقوط تک کئی المیوں کا ذریعہ بنا۔ ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے پاکستان کے میزائل پروگرام پر امریکہ کی مزید پابندیوں کو متعصبانہ اور دہرا معیار قرار دیتے ہوئے خطے میں عدم تحفظ کی وجہ بننے کے امکان کی جو نشاندہی کی اس پر سنجیدہ توجہ دی جانی چاہئے۔ انہوں نے پاکستان کے میزائل پروگرام کو 24کروڑ عوام کا بھروسہ قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ دہرے معیارات اور امتیازی اقدامات نہ صرف ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کی کوششوں کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں گے بلکہ علاقائی امن کو بھی خطرے میں ڈالیں گے۔ یہ ردعمل امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھو ملر کی طرف سے جاری اس بیان کے بعد دیا گیا جسکے تحت پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی مبینہ معاونت پر چار پاکستانی اداروں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ مذکورہ بیان کے بموجب پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنیوالے میزائلوں کی تیاری اور اس کے پھیلائو کے خطرات کے پیش نظر ایگزیکٹو آرڈر کے تحت یہ اقدام کیا گیا ہے۔ پاکستانی ترجمان نے نجی تجارتی اداروں پر پابندیاں عائد کئے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یاد دلایا کہ ماضی میں تجارتی اداروں کی اسی طرح کی فہرستیں بغیر کسی ثبوت کے محض شکوک و شبہات پر مبنی تھیں۔ جبکہ دوسرے ممالک کیلئے جدید فوجی ٹیکنالوجی کیلئے لائسنس کی شرط ختم کرنے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ پاکستان اور امریکہ دو ایسے ممالک ہیں جو نہ صرف طویل مدت تک فوجی معاہدوں کے ذریعے ایک دوسرے کے حلیف رہے بلکہ سقوط ڈھاکہ کے وقت امریکی امداد کی امیدوں کی ناکامی کے باوجود مختلف صورتوں میں ایک دوسرے کے قریب رہے اور آج بھی ہیں۔ دوطرفہ تجارت سے لیکر دہشتگردی کیخلاف جنگ اور افغانستان سے امریکی انخلا کیلئے مذاکرات کی سہولت کاری سمیت متعدد امور میں دونوں ملکوں کا قریبی تعلق واضح ہے۔ اس منظرنامے میں واشنگٹن سے یہ توقع بے محل نہیں کہ وہ محض شبہات کی بنیاد پر پاکستان کو پابندیوں کا ہدف بنانے سے احتراز کرے اور اس باب میں دہرے معیار کی مثال قائم نہ کرے۔ پاک امریکہ تعلقات دہشتگردی کے خاتمے سمیت متعدد حوالوں سے اہم ہیں انہیں زیادہ موثر و ثمر آور بنانے پر توجہ دی جانی چاہئے۔