گزشتہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب، یونانی سمندر میں ڈوب جانے والی تین کشتیوں کے حادثے میں ابتدائی طور پر ایک پاکستانی کے جاں بحق ہوجانے اور 47کو بچالینے کی جو اطلاعات تھیں ،تازہ ترین رپورٹ کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والی کشتیوں کی تعداد 5جبکہ جاں بحق ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد 40تک پہنچ گئی ہے۔یونانی کوسٹ گارڈز نے ریسکیو آپریشن ختم کردیا ہے ۔اس وقت بھی مزیدپاکستانیوں سمیت35افراد لاپتہ ہیں۔جنھیں یونانی حکام نے مردہ قرار دے دیا ہے۔ذرائع کے مطابق لیبیا میں پاکستانی اور مقامی ایجنٹوں کے پاس یورپ جانے کے خواہشمند 5ہزار پاکستانی موجود ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے سادہ لوح پاکستانیوں کو جھانسہ دے کر غیرقانونی طریقوں سے بیرون ملک بھجوانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ انسانی اسمگلنگ پاکستان کیلئے بدنامی کا باعث بنی ہوئی ہے۔وزیراعظم نے گزشتہ برس کے دوران دنیا بھر میں رونما ہونے والے ایسے واقعات جن میں پاکستانی شہریت رکھنے والے افراد ملوث پائے گئے ہیں، کی رپورٹ طلب کی ہے۔وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے جاری کردہ ہدایات ناگزیر ہیں تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ یونان کے اسی علاقے میں جہاں گزشتہ برس 262پاکستانی جاں بحق ہوئے تھے، ریکروٹنگ ایجنٹوں کے بھیس میں پائے جانے والے انسانی اسمگلروں کے خلاف اس واقعہ کی روشنی میں کارروائی غیر سنجیدہ طور پرکیوں کی گئی؟اس امرپر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ملوث افسران کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ ان عوامل کا بھی پتہ لگایا جانا چاہئے جو مروجہ قوانین میں کمزور پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انھیں صورتحال کے تقاضوں کے مطابق بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ انسانیت کے دشمنوں کو قرار واقعی سزا دی جاسکے۔