چند روز قبل رپورٹ سامنے آئی تھی کہ ایس آئی ایف سی کے تعاون سے مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے اور یہ ساڑھے چھ سال کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے لیکن جمعہ کے روز وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری ہونے والی ہفتہ وار رپورٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں پھر سے اضافے کا رحجان شروع ہو گیا ہے۔ ٹماٹر ، لہسن ،چینی، گڑ ، سرسوںکا تیل ، کوکنگ آئل اور گھی سمیت پندرہ اشیا مزید مہنگی ہو گئی ہیں۔ ان اشیا کی قیمتوں میں اضافہ اس لحاظ سے بھی تشویش کا باعث ہے کہ یہ بلا تفریق روز مرہ استعمال میں آتی ہیں۔ مہنگائی نے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے تا ہم حالیہ ہفتے کے دوران 22 ہزار 889 روپے سے 29 ہزار 517 روپے ماہانہ آمدنی رکھنے والا طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ نئے اعداد و شمار کے مطابق ایک ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں صفر اعشاریہ اڑتیس فیصد اضافہ ہوا اور سالانہ بنیادوں پر یہ شرح 3.71 فیصد سے بڑھ کر 4.64 فیصد ہو گئی ۔ تیرہ اشیا سستی اور 23 کی قیمتیں مستحکم بھی رہیں۔ پام آئل کی درآمدی لاگت میں کمی کے باوجود برانڈڈ گھی اور کوکنگ آئل کی قیمت 80 روپے فی کلو اضافہ سے 570 روپے ہو گئی ہے۔ پاکستان کے زرعی ملک ہونے کے ناتے یہاں کھانے پینے کی اشیا کی ارزاں نرخوں پر فروانی ہونی چاہئے لیکن صد افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔ خیبر سے کراچی تک اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ پورے ملک کا اولین مسئلہ معاشی ہے۔ لوگ مہنگائی ،غربت اور بیروزگاری کے ہاتھوں سخت پریشان ہیں۔ بجلی اور گیس کے بل بہت زیادہ آتے ہیں اور وہ ارباب اختیار سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ مہنگائی کب ختم اور اشیائےضروریہ سستی فراہم ہوں گی؟ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پاس قوانین سے لیکر انتظامات تک تمام مشینری موجود ہے جس کیلئے صرف احکامات کافی نہیں ، چیک اینڈ بیلنس کا طریقہ ہی مطلوبہ نتائج دے سکتا ہے۔