سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے دست راست اور 5 جولائی 1977 کو ذوالفقار علی بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے مرکزی کردار جنرل ریٹائرڈ فیض علی چشتی وفات پا گئے ہیں۔
5 جولائی 1977 کی شام جب اس وقت کی بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے 10 کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل فیض علی چشتی نے تمام انتظامات مکمل کرلیے تو آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کے دل میں ایک انجانا خوف تھا جس کا اظہار انہوں نے جنرل چشتی کو یہ فقرہ کہہ کر کیا، مرشد مروا نہ دینا۔
یوں تو بھٹو حکومت پر قبضے کا فیصلہ جنرل ضیاء الحق کا تھا مگر فیض علی چشتی نہ صرف اس فیصلے میں ان کے پہلے ہمنوا تھے بلکہ بھٹو حکومت کے خلاف کارروائی کے کردار نمبر ون بھی وہی تھے۔ وہ بھٹو حکومت کے خاتمے کے اقدام کا مرتے دم تک دفاع کرتے رہے۔
جنرل فیض علی چشتی ہمیشہ آرمی چیف کے عہدے کو منتخب وزرائے اعظم سے مقدم تصور کرتے تھے۔ بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد فیض علی چشتی کچھ عرصہ جنرل ضیاءالحق کے منظور نظر رہے اور انہیں مارشل لاء حکومت میں غیر معمولی اہمیت بھی رہی۔
فیض علی چشتی کی خواہش تھی کہ وہ فل جنرل بنیں مگر ایسا ہو نہ سکا اور انہیں 1980 میں ریٹائر ہوکر گھر جانا پڑا، بعد میں جنرل چشتی نے ’بھٹو، ضیاء اور میں‘ کے عنوان سے کتاب بھی لکھی، جس کی شہرت کے بعد بیٹریل آف اندر کائنڈ اور ڈیموکریسی اینڈ آرمی ان پاکستان کے عنوان سے کتب بھی تحریر کیں۔
جنرل فیض علی چشتی نے سال 2007 میں پیپلز پارٹی کے ایک سینیٹر کی مدد سے بے نظیر بھٹو سے خفیہ ملاقات کرکے 1977 میں اپنے کردار کی وضاحت بھی کی تھی۔ مگر جب ان سے اس بابت پوچھا گیا تو انہوں نے تردید کی۔
وہ بھارت کی ڈھیرا دھون برٹش ملٹری اکیڈمی سے تربیت یافتہ تھے وہ پیدا تو بھارتی پنجاب میں ہوئے مگر تقسیم کے بعد بحیثیت جونئیر فوجی افسر ممبئی سے ایک بحری جہاز پر کراچی آئے اور پھر مرتے دم تک راولپنڈی میں رہے۔