• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سالِ نو کے موقع پر ایک اہم خبرمنظرعام پر آئی ہے کہ سعودی عرب نےبلوچستان میں واقع ریکوڈک سونے کی کان کےپندرہ فیصد حصص خریدنے میں آمادگی ظاہر کردی ہے۔جیونیوزکے مطابق سعودی عرب پاکستان کو دواقساط میں540ملین ڈالرز کی ادائیگی کرے گا، پہلے مرحلے میں دس فیصد شیئرز منتقل کرنے پر 330ملین ڈالرز ادا کیے جائینگے جبکہ دوسرے مرحلے میںپانچ فیصد شیئرز کی منتقلی پر بقایا 210 ملین ڈالرز پاکستان کے قومی خزانے میں جمع ہونگے، مزید برآں سعودی عرب چاغی سمیت بلوچستان کے دیگر مقامات میں قدرتی معدنیات کی تلاش کیلئے 150ملین ڈالر بھی فراہم کرے گا۔ جغرافیائی طور پر ریکوڈک ایران اور افغانستان کی سرحد سے ملحقہ پاکستان کےسب سے بڑے صوبے بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے تانبے اور سونے کے بڑےذخائر کی دریافت کے بعد سے خبروں کی زینت بنا ہوا ہے ۔ریکوڈک کا شمار دنیا کے سونے اور تانبے کےحامل بڑے ذخائر میں ہوتا ہے جہاں ایک محتاط اندازے کے مطابق سات کھرب ڈالر کی اعلیٰ معیار کی بہترین معدنیات کی موجودگی کا امکان ہے، مذکورہ کان سے سالانہ چار ہزارٹن سے زائد سونا اور تانبا کی پیداوار کا تخمینہ لگایا گیاہے۔ ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر کی موجودگی کا اندازہ ستر کی دہائی میں لگایا گیا، تاہم آج سےبتیس برس قبل 1993میں ایک آسٹریلوی کمپنی بی ایچ پی نے ریکوڈک کے علاقےمیں تانبے اور سونے کے اہم ذخائر کا حتمی کھوج لگایا جن کی مالیت اربوں ڈالر بتائی گئی اور ریکوڈک کو لاطینی امریکہ چلی کے بعد دنیا کے سب سے بڑے ذخائرقرار دیا گیا، بلوچستان حکومت نےبی ایچ پی کے ساتھ جوائنٹ وینچر کرتے ہوئے مذکورہ کانوں کو لیز پر دیدیا جس میں حکومت بلوچستان کا حصہ پچیس فیصد طے ہوا، تاہم بی ایچ پی نے اپنی سسٹر کمپنی منکور کے نام سے قائم کرکے شیئرز اسکے نام منتقل کردیے اور وہ حصص بعدازاںایک آسٹریلوی کمپنی ٹی سی سی نے خرید لئے، ریکوڈک کے علاقے سے سونے کے وسیع ذخائر کی خبریں سامنے آئیں تو عالمی سرمایہ داروں کی نظریں بھی ریکوڈک کی جانب مرکوز ہونے لگیں ، لاطینی امریکہ کے ملک چلی اور کینیڈا کی دو کمپنیوں نے مشترکہ طور پر ٹی سی سی سے ریکوڈک کے شیئرز حاصل کرلیےتو دوسری طرف بلوچستان میں معاہدے میں بے ضابطگیوں ،شفافیت کے فقدان اور عوام کے مفادات کو نظرانداز کرنے پر آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں اور پھر 2011ء میں بلوچستان حکومت نے ریکوڈک کان کنی کا معاہدہ منسوخ کردیا جسکے ردعمل میں ریکوڈک معاہدے کی منسوخی کامعاملہ عالمی عدالتوں میں پہنچ گیا ، عالمی اداروں کی جانب سے پاکستان پر چھ ارب ڈالرز کا بھاری ہرجانہ عائد کردیا گیا جبکہ قانونی چارہ جوئی کے باعث قومی خزانے پر خطیر اخراجات کا اضافی بوجھ بھی پڑا، حکومت پاکستان نے گزشتہ کئی سال میں مستقل مزاجی اور استقامت سے عالمی سطح پر اپنا مقدمہ پیش کیا جسکے نتیجے میں کینیڈا کی کمپنی بیرک گولڈ کے ساتھ ازسرنومعاہدہ کیاگیا جبکہ ہرجانہ ادائیگی سے بھی بچت ہوگئی۔ میری نظر میں کینیڈین کمپنی کے ساتھ نیا معاہدہ پاکستان کی معیشت کیلئے ہرلحاظ سے فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے، اسکی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان کی اقتصادی حالت کسی صورت چھ ارب ڈالر کا بھاری جرمانہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی، اگر پاکستان ہرجانے کی ادائیگی سے معذوری ظاہر کرتا تو یہ ناپسندیدہ صورتحال نہ صرف عالمی سطح پر ہماری سبکی کا باعث بنتی بلکہ ملک کو ڈیفالٹ کی طرف بھی لے جاتی، نئے معاہدے کی رُو سے کینیڈین کمپنی نےنہ صرف اپنے حصے کا جرمانہ معاف کردیا بلکہ چلی کی ناراض کمپنی کو بھی پاکستان کے ذمے ہرجانہ ادا کرنے پرآمادگی ظاہر کر دی ۔ توقع کی جارہی ہے کہ اگر سب کچھ منصوبے کے تحت جاری رہا اور ریکوڈک منصوبہ مزید کسی تنازع کا شکار نہ ہوا تو اگلے تین سال میں سونے کی پیداوار شروع ہوجائے گی،نئے معاہدے کےمطابق سونے اورتانبے کا پچاس فیصد حصہ کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کا ہوگا جبکہ بقیہ پچاس فیصد کے حقدار مساوی طور پر وفاق اور بلوچستان ہونگے، ریکوڈک کے علاقے میں صحت، تعلیم اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسے ترقیاتی پروگرام بھی شروع کیے جائیں گے اور ہزاروں افراد کو ملازمت کے مواقع ملیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے پیارے وطن پاکستان کو مالک نے ہر طرح کی نعمت سے نوازا ہے، ہمارے ملک میں دنیا کے سب سے بڑے سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر کی موجودگی بلاشبہ پاکستان کے عوام کیلئے ایک انمول تحفہ ہے، تاہم یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم قدرتی وسائل کو بہترین انداز میں استعمال میں لانے کی بجائے نت نئے تنازعات میں اُلجھ جاتے ہیں، تھوڑی دیر کیلئے سوچا جائے کہ اگر ریکوڈک کی افادیت روزِ اول سے سمجھ لی جاتی اور ہمارے ماضی کے حکمران ریکوڈک معاہدے کے حوالے سے سمجھداری اور دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے تو آج پاکستان ہزاروں ٹن سونا نکالنے کے باعث بھاری قرضوں کے شکنجوں سے نکل کر خوشحال ملکوں کی فہرست میں شامل ہو چکاہوتا۔ تاہم یہ بھی ایک ناقابلِ فراموش حقیقت ہے کہ بلوچستان کی سرزمین کو قدرتی معدنیا ت سے مالامال ہونےکے باعث عالمی سازشوں کا بھی شکار ہونا پڑرہا ہے، مبصرین کے مطابق صوبے میں جاری شورش کی ایک بڑی وجہ قیمتی معدنیات کی موجودگی ہے جن پر کچھ عالمی قوتوں کی نظرہے اوروہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے پاکستان کے عوام کو محروم رکھنے کی خواہاں ہیں۔ ریکوڈک منصوبہ ماضی میں ضرور تنازعات کا شکار رہا ہے لیکن میرا ماننا ہے کہ ماضی سیکھنے کیلئے ہوتا ہے اور ہمیں ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے باز رہنا چاہیے۔ سعودی عرب کی جانب سے ریکوڈک منصوبے میں شمولیت امید کی ایک ایسی کرن ہے جس سے پاکستان باوقار انداز میں اپنے قدرتی وسائل کے بل بوتے پر غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے،تاہم اس کیلئے بنیادی شرط یہی ہے کہ ریکوڈک کے ماضی کےتجربے سے سبق سیکھا جائے اور یہ امر یقینی بنایا جائے کہ مستقبل کے معاہدے منصفانہ، شفاف اور ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہوں۔

تازہ ترین