ٹیکس کسی بھی ملک کو چلانے کیلئے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔آج کے ترقی یافتہ ممالک ٹیکسوں کی بدولت ہی معاشی استحکام حاصل کررہے ہیں۔پاکستان میں بھی مختلف نوعیت کے ٹیکس وصول کیے جارہے ہیں،مگر ٹیکس چوری، کرپشن اور دوسری خرابیوں کی موجودگی میں پورے ٹیکس نظام پر نظرثانی اور اصلاحات کی ضرورت بھی محسوس کی جارہی ہے۔آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کیلئے نئے ٹیکسوں کا نفاذ اور پرانے ٹیکسوں میں اضافہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔عالمی مالیاتی ادارے نے اس حوالے سے جو اہداف مقرر کیے ہیں،ان کا حصول اس وقت حکومت کی سب سے بڑی آزمائش ہے۔اس صورتحال میں وزیراعظم شہباز شریف نے ٹیکسوں کے موجودہ نظام کے بارے میں کھل کر اظہار کیا ہے۔اس کی خامیوں کی نشاندہی کی ہے،اسے بہتر بنانے کے اقدامات پر روشنی ڈالی ہے اور تاجر برادری سے بھی تجاویز مانگی ہیں۔کراچی میں اسٹاک ایکس چینج ،فیس لیس کسٹمز اسیسمنٹ سسٹم اور شعبہ صحت کیلئے رہنما اصولوں پر مبنی کتاب کی تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ،ان کا خلاصہ یہ ہے کہ موجودہ ٹیکس نظام کاروبار میں رکاوٹ ہے۔تمام شعبوں میں ای گورننس کا نظام نافذ کرنے کی ضرورت ہے،جس پر عمل درآمد کیا جائے گا،آئی ایم ایف سے کیے جانے والے وعدے پورےکیے جائیں گےاور وقت آنے پر اسے خدا حافظ کہہ دیں گے۔معاشی ترقی کیلئے سب کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہیں۔جدید تقاضوں سے ہم آہنگ خودکار نظام کے نفاذ سے بوسیدہ نظام کا خاتمہ ہوگااور انسانی مداخلت کم سے کم ہوجائے گی۔آنے والے وقت میں ٹیکس کی شرح میں کمی کی جائے گی۔ٹیکس سلیب کم کرنے سے چوری بھی کم ہوگی۔کسٹم کے جدید نظام سے کلیرنس کا عمل 107گھنٹے سے کم ہوکر 19گھنٹے پر آگیا ہے۔درآمد کنندگان کی88فیصد تعداد نئے نظام سے مطمئن ہے۔حکومتی اقدامات کے باعث برآمدات میں اضافہ اور مہنگائی میں کمی ہوئی ہے۔سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے ٹیکس اصلاحات ناگزیر ہیں۔ماضی کے بوسیدہ نظام کے ذریعے ملک کو لوٹاگیا۔حکومت کی موثر پالیسیوں کی بدولت ملک کی معیشت میں استحکام آیا۔ٹیکسوں کی اضافی ریکوری پر مراعات دی جائیں گی۔معاشی بحالی کی رفتار بڑھانے کیلئے بنکوں سے سرمائے اور قرضوں کی ضرورت ہے۔معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہورہی ہے۔اس مقصد کیلئے پالیسی ریٹ 22فیصد سے کم کرکے 13فیصد کیا گیا ہے۔وزیراعظم کے علاوہ وفاقی وزرا نے بھی اپنی تقریروں میں ملکی معیشت درست سمت میں گامزن ہونے کی بات کی ۔اسحاق ڈار نے کہا کہ بیرونی امداد پر انحصار کم کرنے کیلئے مقامی کیپیٹل مارکیٹ کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔محمداورنگ زیب کا کہنا تھا کہ اسٹاک مارکیٹ میں تیزی سرمایہ کاروں کے اعتماد کی عکاسی کرتی ہے۔وزیراعظم نے اس موقع پر کراچی کے تاجروں کو اسلا م آباد آنے کی دعوت دی تاکہ معیشت پر کھل کر بات کی جاسکے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ کراچی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہےاور یقین دلایا کہ سرکاری اداروں کی نجکاری میں شفافیت یقینی بنائی جائے گی۔وزیراعظم نے جن مسائل کی نشاندہی کی اور معیشت میں استحکام لانے کیلئے جن اقدامات کا ذکر کیا ،وہ ان کی اتحادی حکومت کی پالیسیوں کا واضح اظہار ہیں۔بلاشبہ اس معاملے میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہی ہے مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔خاص طور پر ٹیکسوں کے معاملے میں مزید اصلاحات کی ضرورت ہے۔اس وقت ٹیکسوں کا سب سے زیادہ بوجھ تنخواہ دار طبقے کو برداشت کرنا پڑرہا ہے ،کاروباری برادری بھی مطمئن نہیں ہے۔ٹیکس نظام کو تمام اسٹیک ہولڈرز کیلئے قابل قبول بنانے اور قابل عمل اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔