• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1988 میں دنیا کے 125 ممالک میں پولیو پایا جاتا تھا جبکہ آج صرف دو ممالک میں پولیو کے مریض ملتے ہیں اور یہ دو ممالک ہیں افغانستان اور پاکستان۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں پولیو کے 92 تصدیق شدہ کیسوں کی نشاندہی ہوئی ہے جن میں 25 افغانستان اور 67 پاکستان میں ریکارڈ کئے گئے۔ تازہ ترین لیبارٹری ٹیسٹ کے نتائج میں ٹانک میں ایک اور نیا کیس سامنے آیا ہے جس سے یہ تعداد 68 ہو گئی ہے۔ پاکستان میں 1994 میں پولیو کے خاتمے کیلئے منظم کوششیں شروع کی گئیں جن کے نتیجے میں بڑی حد تک اس پر قابو پا لیا گیا تھا لیکن حالیہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ یہ پھر سر اٹھانے لگا ہے اور اس صورتحال کے پیچھے پولیو سے بچائو پروگرام کے خلاف ہونے والا منفی پروپیگنڈہ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونیوالی منفی سوچ ہے۔ غذائی قلت ،بچوں کی خراب صحت ، آلودہ پانی اور صفائی کے ناقص انتظامات بھی وائرس پر قابو پانے کی راہ میں رکاوٹیں ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں سرحد کے آر پار نقل و حرکت بھی معاملے کو الجھا رہی ہے۔ 2023میں دونوں ملکوں میں پولیو کے 12 کیسز سامنے آئے تھے اور 2024میں یہ تعداد 92تک پہنچ جانا باعث تشویش ہے۔ ماحولیاتی نمونوں میں کراچی، پشاور اور کوئٹہ کے علاقوں میں اس کی دوبارہ سے موجودگی دیکھی جا رہی ہے۔ خطے میں پولیو کے خاتمے کیلئے غلط معلومات سے نمٹنا، رسائی کو یقینی بنانا اور تنازعات کے علاقوں میں ویکسین کی مہمات کو محفوظ بنانا انتہائی اہم ہے ۔ پاکستان اور افغانستان کے علاوہ کانگو، گنی، انگولا، بینن، موزمبیق، بورکیا، فاسو چاڈ، ایتھوپیا، کینیا، لائبیریا، نائجیریا، سیر الیون، صومالیہ، نائجر ، جنوبی سوڈان اور تنزانیہ میں پولیو کیسز رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔ سعودی عرب نے ان تمام ممالک سے آنے والے مسافروں کیلئے پولیو ویکسین سرٹیفکیٹ لازمی قرار دے دیا ہے۔ پولیو کا پھیلائو انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے اور 2025 میں ہر صورت اس کا حل ہونا چاہئے۔

تازہ ترین