امریکہ کے 47ویںصدر کی حیثیت سے وائٹ ہائوس کے موجودہ مکین ڈونلڈ ٹرمپ ریاست ہائے متحدہ کے 45ویں صدر بھی رہ چکے ہیں۔ 20جنوری کو کیپٹل ہل میں حلف برداری کی تقریب میں ان کا کہنا تھا کہ پنسلووینیا کے قاتلانہ حملے میں خُدا نے انہیں اس لئے بچایا کہ وہ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنا سکیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مریخ پر امریکی جھنڈا لہرانے، امریکی فوج کو طاقتور ترین بنانے، ریاست ہائے متحدہ سے لاکھوں غیر قانونی تارکین بے دخل کرنے، متعدد شعبوں میں اصلاحات لانے سمیت جو وسیع ایجنڈا پیش کیا اس میں عالمی امن کیلئے کاوشوں کا اظہار بھی شامل ہے۔ حلف برادری کے اگلے ہی روز انہوں نے بڑی تعداد میں ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کئے۔ مگرچند دنوں میں نظر آنے لگا کہ سب کچھ آسان نہیں۔ کولمبیا کے حوالے سے احکامات پر عمل نہ ہوسکا۔ میکسیکو کے ساتھ معاملات میں صدر ٹرمپ کے ارادے کچھ نظر آتے ہیں جبکہ صورتحال مختلف محسوس ہوتی ہے۔ یہ خبر بھی سامنے آئی کہ سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی سیکورٹی امریکی وزیر دفاع نے واپس لے لی ہے۔ چین، انڈیا اور دوسرے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کے حوالے سے جو ارادے ظاہر کئے گئے انکے ردّعمل کے بارے میں سردست یقین سے کچھ کہنا ممکن نہیں۔ فلسطین کے حوالے سے مصر اور اردن سے غزہ کے لوگوںکو پناہ دینے کا مطالبہ اگرچہ ’’عارضی منتقلی‘‘ کے نام پر کیا گیا مگر مسلم دنیا اس پر صدمے کی کیفیت سے دوچار ہے ۔یہ تاثر نمایاں ہو رہا ہے کہ گریٹر اسرائیل کا راستہ ہموار کرنے کیلئے فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے کا پلان روبہ عمل لایا جارہا ہے یہ ایسی صورتحال ہے جسے دنیا بھر کے انصاف پسند حلقے قبول کرنے میں عار محسوس کرینگے۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت متعدد ملکوں کے طلبہ نے غزہ کی نسل کشی پر احتجاج کیلئے کیمپ لگائے تھے۔ کئی ملکوں نے فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا ردّعمل اس باب میں مختلف ہوگا۔ اب واشنگٹن میں وفاقی ڈسٹرکٹ جج کے اہم عہدے پر فائز 41سالہ پاکستانی نژاد امریکی خاتون جج نے صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر پر عملدرآمد عارضی طور پر روک کر ایک طرف یہ واضح کیا ہے کہ امریکی قوانین بعض احکامات کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں، دوسری طرف امریکہ کی عدالتی آزادی کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ خاتون جج نے امریکہ کی نان پرافٹ تنظیموں کی نیشنل کونسل اور پبلک ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر عارضی اسٹے آرڈر جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت کے لئے 3فروری کی تاریخ مقرر کی ہے۔ دوسری جانب 22ریاستوں اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے ڈیموکریٹک اٹارنی جنرلز نے بھی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے وفاقی امداد روکنے کے خلاف عدالت سے رجوع کرلیا ہے۔ جج لورین علی خان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے وفاقی حکومت کو فی الحال ان پروگراموں کی مکمل حد تک معلومات نہیں جو فنڈنگ منجمد کئے جانے سے متاثر ہوتے۔ اس معاملے کا یہ پہلو خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے بدھ کے روز عدالت میں سماعت سے قبل اس حکم نامے کو ہی منسوخ کر دیا جس کے تحت وفاقی قرضوں، گرانٹس اور دوسری مالی امداد کو روکا جانا تھا۔ مذکورہ اسٹے آرڈر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی نیشنل میڈیا میں خاتون جج کے اس حکم کو نہ صرف بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کیا گیا بلکہ اس عارضی حکم کے اثرات و مضمرات پر تبصرے بھی جاری ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا موجودہ عہدِ حکومت انکے دعووں کے مطابق امریکہ کو بدل بھی سکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہےکہ خود امریکی سیاسی و عوامی حلقوں کا ردّعمل انکے حوالے سے پوری طرح موافقت پر مبنی نہ ہو ۔ دنیا کے مختلف حلقوں سے آنے والی سرگوشیوں اور بیانات کے بھی الگ الگ مفاہیم ہیں۔