• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان کا یہ کہنا بجااور انتہائی توجہ طلب ہے کہ افغانستان میں جدید امریکی ہتھیاروں کی موجودگی پاکستان اور اس کے شہریوں کے تحفظ اور سلامتی کیلئے خطرے کا باعث ہے،ان ہتھیاروں کو کالعدم ٹی ٹی پی سمیت دیگر دہشت گرد تنظیمیں دہشت گردانہ حملوں میں استعمال کررہی ہیں۔اس حوالے سے بارہا کابل حکومت سے ان تمام اقدامات کا مطالبہ کیا گیا جن سے یہ یقینی بنایا جاسکے کہ یہ ہتھیار غلط ہاتھوں میں نہ جائیں۔صدر ڈونلڈٹرمپ نے حلف اٹھانےسےکچھ دیرپہلے،امریکی طیارے،جنگی سازوسامان،گاڑیاں اور مواصلاتی آلات واپس کرنے کاافغان طالبان حکومت کو انتباہ کیا تھا،جسے افغان طالبان حکومت مسترد کرچکی ہے۔یہاں یہ واضح کیا جانا ضروری ہے کہ امریکی فوج کے چھوڑے ہوئے اسلحے کا افغانستان میںکاروبارعام ہے۔کابل میں واقع مجاہدین بازار میں ملنے والا عسکری سامان وہاں مقامی طور پر تیار کردہ نہیں ہوتابلکہ یہ وہی ہتھیار ہیں جو امریکہ اور اس کے اتحادی انخلا کے وقت افغانستان میں چھوڑ گئے تھے ۔2022ءمیں امریکی محکمہ دفاع کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ اس کا 7.2ارب ڈالر کا فوجی سازوسامان افغانستان میں رہ گیا ہے۔اس میں تین لاکھ 58530 رائفلیں،64ہزار مشین گنیں،25327گرینیٹڈ لانچراور22174ہمویز(تمام اقسام کی سطحوں پر چلنے والی گاڑیاں)شامل ہیں۔ سیکورٹی فورسز نے مختلف علاقوں میں سرچ آپریشن کے دوران خوارج کے قبضے سے جو اسلحہ برآمد کیا ہے ،اس کی کڑیاں افغان بازاروںسے جاکر ملتی ہیں۔اس سے پیشتر کہ افغان سرزمین پر دہشت گرد تنظیمیں پھر سے سر اٹھائیں،ترجمان دفتر خارجہ کے بیان کی روشنی میںعالمی برادری کو تمام حقائق ملحوظ رکھتے ہوئے مشترکہ کارروائی عمل میں لانی چاہئےتاکہ پاکستان سمیت خطے کے ممالک دہشت گردی سےمحفوظ رہ سکیں۔

تازہ ترین