ہمارے ہاں بعض سیاسی چال بازوں نے ماحول ایسا بنا دیا ہے کہ وہ ہر صورت میں الیکشن جیتنا چاہتے ہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے الیکشن دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شاید یہ ہمارا قومی مزاج بن گیا ہے کہ ہم دھونس دھاندلی سمیت ہر نا جائز حربے سے الیکشن جیتنا چاہتے ہیں۔ 77ء میں پیپلز پارٹی پر دھاندلی کا الزام لگا تھا، بھٹو نے اپنے خاص آدمیوں کو بلا مقابلہ جتوانےکیلئے مخالف امیدواروں کو اغوا کروایا، الیکشن میں انتظامیہ کا کھلا استعمال جمہوریت کیساتھ مذاق تھا۔ 1980ء کے بعد جتنے بھی الیکشن ہوئے، ان میں دائیں بازو کی جماعتوں کی ہر طرح سے مدد کی گئی، ہر الیکشن میں دھونس دھاندلی کا مظاہرہ کیا گیا، ہر مرتبہ دھاندلی کے نئے طریقے آزمائے گئے اور جب پی ٹی آئی نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی بات کی تو دھاندلی کرنیوالے سارے کردار جمع ہو گئے اور انہوں نے ای وی ایم کی مخالفت کر دی، اس میں پس پردہ کرداروں کا بھی کردار تھا، ہر ذی شعور پاکستانی کی یہ خواہش ہے کہ ہمارے ملک میں شفاف الیکشن ہوں تاکہ جمہوریت کا حُسن نکھر کر سامنے آ سکے۔ ہماری ہمسائیگی میں ایران اور بھارت کا الیکشن ای وی ایم کے ذریعے ہوتا ہے، نہ دھاندلی ہوتی ہے، نہ کوئی دھاندلہ ہوتا ہے، الیکشن رزلٹ بھی فوراً مل جاتا ہے۔ ہمارے ہاں آخری الیکشن فروری 2024ء میں ہوا ، اس الیکشن میں بددیانتی، دھونس اور دھاندلی کے سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے گئے، اللہ کرے وہ وقت جلد آئے جب ہمارے ملک میں شفاف الیکشن ہوں۔ مجھے لاہور ہائی کورٹ بار کا الیکشن دیکھ کر خوشی ہوتی ہے، یہ الیکشن ای وی ایم کے ذریعے ہوتا ہے، کوئی کسی پر دھاندلی کا الزام نہیں لگاتا، فوری رزلٹ آ جاتا ہے، نہ کوئی بکسے اٹھا کے بھاگتا ہے، نہ کوئی کسی کے فون کا انتظار کرتا ہے، بس! جو حقیقی رزلٹ ہو، اس کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ یہ باتیں مجھے اسلئے یاد آ رہی ہیں کہ 22 فروری کو لاہور ہائیکورٹ بار کا الیکشن ہے تو 23 فروری کو گورنمنٹ کالج لاہور کی اولڈ راوینز یونین کا الیکشن ہے، میرے لئے زیادہ دلچسپی مادر علمی کے الیکشن میں ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور 1864ء میں قائم ہوا، 18سال اس کا الحاق کلکتہ (کولکتہ) یونیورسٹی سے رہا پھر 1882ء میں یہ الحاق پنجاب یونیورسٹی سے ہو گیا۔ پاکستان اور انڈیا میں کوئی شعبہ ایسا نہیں، جس میں گورنمنٹ کالج لاہور نے با کمال لوگ نہ دیئے ہوں، اگر ان کا تذکرہ کروں تو مجھے کئی کالم لکھنا پڑیں گے، قصہ مختصر! گورنمنٹ کالج لاہور، عظیم درسگاہ ہے۔ مرحوم اشفاق احمد اسے درگاہ کہا کرتے تھے، درس گاہ کا احترام ہوتا ہے اور اگر وہ درگاہ ہو تو احترام کے ساتھ عقیدت بھی شامل ہو جاتی ہے۔ چند برس پہلے اولڈ راوینز یونین کے الیکشن میں مجھے کوئی 400 بوگس ووٹوں کا پتہ چلا تو میں نے’’جنگ‘‘ کے انہی صفحات پر اس جعلسازی اور بددیانتی کو بے نقاب کیا، میرے مؤقف کو تسلیم کرتے ہوئے اولڈ راوینز یونین کیلئے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس فاروق احمد شیخ نے فیصلہ دیا مگر لوگوں کا کیا کہئے کہ انہیں فیصلہ آنے پر بھی شرمساری نہیں ہوتی پھر 2022ء میں کوئی چار پانچ سو ووٹوں کی واردات کی گئی، اب جو الیکشن 23 فروری کو ہونے جا رہا ہے، اس میں ایک بڑے دھاندلے کا منصوبہ تھا، اس منصوبے پر ایک عدالتی فیصلے نے پانی پھیر دیا۔ اولڈ راوینز یونین کا ایک آئین ہے، اس آئین کے تحت ممبر شپ ہوتی ہے اور الیکشن ہوتے ہیں۔ آئین کے مطابق وہی لوگ ووٹ دینے کے مستحق ہیں، جن کا ووٹ کم از کم نوے دن پہلے بنا ہو مگر یہاں الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کے ساتھ مل کر ایک واردات کی گئی اور چند دنوں میں 1500 ووٹ بنوا لیا گیا، اس واردات کے خلاف الیکشن میں حصہ لینے والے چند امیدواروں نے چیف الیکشن کمشنر کو درخواستیں دیں، جب ان کی طرف سے لیت و لعل کا مظاہرہ کیا گیا تو ایک امیدوار ساجد گورایہ عدالت جا پہنچے، انہوں نے یونین کا آئین عدالت کے روبرو رکھا اور خوب مقدمہ لڑا، عدالتی فیصلہ آیا، وہ فیصلہ الیکشن کمیشن کو دے دیا گیا، شکر ہے کہ گورنمنٹ کالج لاہور کے الیکشن کمیشن نے عدالت کا فیصلہ مان لیا حالانکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان، سپریم کورٹ کے فیصلے ماننے سے گریزاں ہے۔ خیر! اب 1500ووٹرز آئین کے مطابق اس الیکشن میں ووٹ نہیں ڈال سکیں گے اور جو 2022ء میں 500 بوگس ووٹ بنے تھے، وہ بھی محروم رہیں گے۔ ہمارے کالج کی بڑی شاندار روایات ہیں مگر کچھ لوگ الیکشن کو دولت کا کھیل بنانا چاہتے ہیں۔ 23 فروری کو الیکشن ہو گا، اس میں تین صدارتی امیدوار ہیں، اطہر اسماعیل ڈی آئی جی پولیس ہیں، کالج کے زمانے میں مختلف مجالس کے عہدیدار تھے، شاندار آدمی ہیں۔ دوسرے امیدوار محمد خان رانجھا ہیں، ایک صوبائی محکمے کے سیکرٹری ہیں، بات سننے اور سنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ تیسرے امیدوار ساجد گورایہ ہیں، یہ ہائیکورٹ کے وکیل ہیں، اولڈ راوینز یونین کی موجودہ منتخب باڈی میں سینئر نائب صدر ہیں، متعدد مرتبہ الیکشن لڑ چکے ہیں، انہیں اولڈ راوینز یونین کی سیاست کا نوابزادہ نصر اللہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ORU کی پوری سیاست سے آگاہ ہیں، انہیں اپنے مخالفین پر ایک برتری حاصل ہے کہ انکے دو امیدوار جوائنٹ سیکرٹری ندا نور اور ایگزیکٹو ممبر ڈاکٹر ابرار الٰہی ملک بلا مقابلہ جیت چکے ہیں۔ سینئر نائب صدر کیلئے ڈاکٹر تنویر حسین بھٹی اور میاں سہیل انور کا مقابلہ ہے جبکہ سیکرٹری کیلئے امجد وٹو، شہاب بشارت اور خواجہ سلیم کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہو گا۔ راوینز کی یہ خواہش ہے کہ کم از کم ان کا الیکشن شفاف ہونا چاہیے۔ الیکشن کا رزلٹ جو بھی ہو، فی الحال دعوے بہت کیے جا رہے ہیں، ان دعوؤں پر ایک شعر یاد آ رہا ہے کہ
جن دوستوں سے ہم کو توقع وفا کی تھی
وہ دوست دل سے نقش وفا تک مٹا گئے