• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’یہ موم بتی ہمارے لیے نہیں جل رہی، بلکہ ان کیلئے ہےجنھیں ہم جیل سے بچانے میں ناکام ہوگئے، جنہیں جیل کے راستے پر گولی مار دی گئی ، جن پر تشدد کیا گیا ، جنھیں اغوا کیا گیا، جنہیں غائب کردیا گیا، یہ موم بتی اُن کیلئے ہے ۔‘‘ پیٹر بنسن، بانی ایمنسٹی انٹر نیشنل ہونٹ اور دل ایک ہی جسم کے اعضا ہیں ، لیکن بعض اوقات ان کے درمیان لامتناہی فاصلہ حائل کردیا جاتا ہے ۔ ہونٹوں سے دل کی دھڑکن صدا بن کر نہیں نکلتی، وہ خاموش ہوجاتے ہیں کیوں کہ اُن پر پابندیوں کی مہر ثبت ہوتی ہے ۔ پاکستان میں حالات اس طرح کے بنا دیے گئے ہیں کہ خاموشی کا ماحول ہر طرف چھایا ہو اہے جو کسی وارننگ کے بغیر مصنوعی حد بندیوں میں سے گزر سکتا ہے ۔

جو ممالک اپنے عہد میں سربلند اور ممتاز ہوئے ، ان کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے انسان کو ان کی ایک مماثلت حیران کردیتی ہے کہ کس طرح انھوں نے اپنے اپنے آئین کی کتابوں میں درج شہری آزادیوں اوراپنے عوام کے حقوق کی پاس داری کی ۔ اور ان ممالک کی تاریخ بھی ہے جو پس ماندگی کی مہیب دلدل میں صرف اسلئے دھنسے ہوئے ہیں  کیوں کہ انکے رہنما اپنے عوام کو آزادی دینے سے خائف تھے ۔ انھیں نہ صرف ترقی کے سفر سے محروم رکھا گیا بلکہ اتنے تواتر کیساتھ جبر و تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا کہ یہ ان کی زندگی کا حصہ بن گیا ۔ اس طرح ان کی آزادی کا جذبہ کند ہوگیا، جسکی وجہ سے وہ خطرناک اثرات بگولوں کی طرح انکے درپے ہوگئے ۔

ایسے قوانین کے حالیہ نفاذپر ، جن کا مقصد بظاہر اس طرح کی آزادیوں سے انکار یا ان پر پابندی لگانے کے تناظر میں ہے،انسان سوچتا ہے کہ کیا اس سے تشدد میں اضافے کی راہ ہموار ہوگی، یا لوگ آرام سے بیٹھ کر ایک تکلیف دہ حد تک ناممکن ماحول میں زندہ رہنا سیکھ لیں گے؟ موجودہ ماحول میںسوشل میڈیا کا پھیلائو اور اس سے پیدا ہونیوالی وسیع بیداری دیکھتے ہوئے ایسا ناممکن نظر آتا ہے کہ یہ زندگی کا ایک قابل قبول نمونہ بن جائے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آزادی اورخیالات کو الفاظ کا روپ دینے کے حق سے محرومی کےنتیجے میں پیدا ہونے والی اذیت بلند درجے کی مزاحمت کی راہ ہموار کرتی ہے ۔ ایسے سوالات پوچھے جا رہے ہیں، ان گنت سوالات، جو سوچ کے عمل سے مزاحم ہیں جو ان قوانین کے نفاذ کا باعث بنتے ہیں۔ ہم اس نہج پر کیوں پہنچے ہیں کہ ہمیں اپنے حقوق، اپنی آزادیوں، قانونی اور انصاف کے وسیع فریم ورک کے اندر فیصلے کرنے کے جائز اختیارات سے محروم کیا جا رہا ہے ؟ ہماری آواز کو کیوں دبایا جا رہا ہے اور ہمارے الفاظ کو رسائی سے محروم کیا جا رہا ہے؟ ریاستی آلات کا استعمال کیوں ضروری ہو گیا ہےکہ لوگوں کو سکھایا جائےکہ وہ کیسا طرز عمل اختیار کریں، بجائے اس کے کہ لوگ خود احساس ذمہ داری اور مقصدیت کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے فیصلے کریں ۔ یہ اور اسی طرح کی بہت سی تشویش نے ہماری سوچوں کو گھیر رکھا ہے ، جسکے نتیجے میں موت جیسی خاموشی طاری ہے ، بقول رابندر ناتھ ٹیگور: کیا تم دور سے موت کا ہنگامہ سنتے ہو / آگ کے طوفان اور زہریلے بادلوں سے اس کی گرج سنائی دے رہی ہے / کپتان ملاحوں سے مخاطب ہے کہ جہاز کو کسی گم نام ساحل کی طرف لے چلیں / لیکن اس کا وقت بھی ختم ہوچکا ...اب وقت تھم چکا ...جہاں پرانے تجارتی سامان کی خریدو فروخت کا سلسلہ جاری رہتا ہے /جہاں مردہ اجسام سچائی کے خلا تیرتے پھرتے ہیں ۔

76 سال بعد ہماری منزل اب بھی بے یقینی کے بادلوں میں گھری ہوئی ہے اور ہمارا راستہ دھند میں کھو چکا ہے۔اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ دھند مزید گہری ہوتی جارہی ہے۔ 76سالوں سے ہمارے لیڈر خود غرضی میں مبتلا ، ذاتی سرمائے کے انبار جمع کرنے میں مصروف ہیں۔ 76سالوں سے ہمارے عوام اپنی قسمت، اپنی تقدیر اور اس کی سمت سے غیر یقینی پن کا شکار ہیں۔ 76سالوں سے ہم بولے گئے یا لکھے ہوئے لفظ کے استدلال کی بجائے اذیت ناک چھڑی سے ہانکے جارہے ہیں۔ 76 سال بعد ہم درپیش معاملات بارے میں اس سے زیادہ شکوک و شبہات میں مبتلا ہوگئے ہیں جتنے اس ملک کی تخلیق کے وقت تھے ۔

مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا کہ ناانصافی کہیں بھی ہو،یہ ہر جگہ انصاف کیلئے خطرہ بن جاتی ہے۔ یہ الفاظ ان کے انسانی حقوق اور آزادیوں کے علمبردار ہونےکی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ ایسے معاملات پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا، درحقیقت کوئی سمجھوتا ہونا بھی نہیں چاہیے۔ ان کی جدوجہد ان معاشروں میں رونما ہونے والی تبدیلی کا ایک اہم لمحہ تھا جسکے بعد واپسی ناممکن ہوتی ہے۔ دنیا کے دیگرجمہوری ممالک نے ان اقدار کی دل سے حمایت کی ۔ اس نے انھیں انسانی آزادی اور اسکے نتیجے میں ہونے والی ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے۔

پھر ایسا کیوں ہے کہ کچھ ممالک ان انقلاب آفریں اقدار کی پیروی کرنے کی بجائے ان کی نفی کرنے اور تنزلی کی راہیں کھولنے میں مصروف ہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ یہ ممالک اور ان کی قیادتیں اپنے عوام میں اعتماد پیدا کرنے سے قاصر ہیں اور ان کے جسموں کو جکڑ کر ان کے خیالات کو کمزور کرنے کی مسلسل کوششیں کر رہی ہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ وہ اپنے لوگوں سے مکالمہ شروع کرنے کی بجائے ان کے ارادوں سے ہمیشہ خوفزدہ رہتے ہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ قومی اہداف کو آگے بڑھانےکیلئے ان کے بے پناہ جوش اور توانائی کو بروئے کار لانے کی بجائے ان صلاحیتوں کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے؟قومی ہنر کے لعل و جواہر ملبے کے ڈھیر تلے دب کر رہ جاتے ہیں ۔ ایک تمثیل ہے جو ہونٹوں کو دل سے جدا کرتی ہے ، حالانکہ یہ انسانی جسم میں ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں ۔ یہ دوری اس وسیع خلیج کی بھی عکاسی کرتی ہے جو قیادتوں اور ان کے لوگوں کے درمیان حائل ہوتی ہے ۔ حیرت کی بات نہیں کہ ہمارے بنیادی مفادات بھی خطرے کی زد میں ہیں۔ دنیا بھر میں بدنامی کمانے اور مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کے علاوہ آزادیاں اور حقوق کو سلب کرنے کے سنگین نتائج کے حوالے سے کافی انتباہات سامنے آئے ہیں۔ یورپی یونین کے خصوصی نمائندے برائے انسانی حقوق، اولوف سکوگ کی طرف سے تازہ ترین تنبیہ کو آسانی سے نہیں جھٹکا جا سکتا ، جن کاکہنا ہے کہ جی ایس پی پلس اگلے رائونڈ میں اسی طرح نہیں مل جائیگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’آپ صرف سیاست دانوں، حکام یا نظام کو تنقید کا نشانہ بننے سے بچانےکیلئے آزادی اظہار پر قدغن نہیں لگا سکتے‘‘۔یہ ایک تشویشناک صورت حال ہے۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ سختیاں میرے ہونٹوں پر مہر لگا سکتی ہیں، لیکن میرا دل اس سے بھی زیادہ زور سے دھڑکتا رہے گا۔

(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)

تازہ ترین