• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جہاز رانی ، جہاز سازی اور شپ بریکنگ کے شعبوں میں کبھی پاکستان عالمی سطح پر ممتاز مقام رکھتا تھا لیکن مقتدر طبقوں کی مفاد پرستی، کرپشن، آئین و قانون کی پامالی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے جس طرح زندگی کے تمام شعبے انحطاط کاشکار ہوئے ، اسی طرح جہاز رانی کے میدان میں بھی ملک پسماندگی کا شکار ہوتا چلا گیا اور اب کیفیت یہ ہے کہ پاکستان فریٹ چارجز کی مد میں غیر ملکی شپنگ کمپنیوںکو سالانہ 6 سے 8 ارب ڈالرادا کرتا ہے۔ پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن صرف 12 پرانے جہاز چلاتی ہے جبکہ کمپنی کے پاس ایک بھی کارگو کنٹینر جہاز نہیں۔ میری ٹائم سیکٹر میں اصلاحات کیلئے بنائی گئی ٹاسک فورس کے مطابق پی این ایس سی نے کراچی شپ یارڈ میں مقامی طور پر پاکستان کے پہلے 1120 ٹوئنٹی ایکویولنٹ یونٹ صلاحیت کے حامل کنٹینر جہاز کی تعمیر کا جو خوش آئند منصوبہ شروع کیا تھا مگر جسے ایک سال پہلے روک دیا گیا تھا اسے اب اسے ازسرنو بحال کردیا گیا ہے۔ منصوبے کی تکمیل کے بعد فریٹ چارجز کی مد میں سالانہ کئی ارب ڈالر کی بچت ہوگی۔ دوسری جانب شپ بریکنگ کی صنعت بھی عدم توجہ کا شکار رہنے کی وجہ سے مکمل تباہی کے قریب پہنچ چکی ہے۔ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ جو 1980 ء کی دہائی میں دنیا کا تیسرا سب سے بڑا یارڈ تھا، اب صرف 30کروڑ روپے سالانہ کماتا ہے۔ ہانگ کانگ کنونشن جیسے عالمی ضوابط کی تعمیل میں کمی جیسے عوامل نے گڈانی کو غیر مسابقتی بنا دیا ہے اور اس سال جولائی میں ایچ کے سی نافذ العمل ہونے سے قبل اگر پاکستان نے اپنی جہاز توڑنے کی انڈسٹری کو جدید نہ بنایا تو اس کے پاس جتنا کاروبار باقی رہ گیا ہے ‘اس سے بھی محروم ہو جائے گا۔ تاہم یہ امر اطمینان بخش ہے کہ موجودہ حکومت شپ بریکنگ کی بحالی پر بھی توجہ دے رہی ہے جس کی بنا پر توقع ہے کہ یہ شعبہ بھی ایک بار پھر معاشی ترقی میں نمایاں کردار کرسکے گا اور بڑی تعداد میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کا ذریعہ بنے گا۔

تازہ ترین