• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ وجمہوریت کو فتح کرنے کا منصوبہ تکمیل کے قریب ہے۔ اس مرحلے تک پہنچنے کیلئے اختیار کیا گیا راستہ ہو سکتا ہے کہ سادہ سا ہو لیکن اس میں اب ایسے گڑھے اور کھائیاں نمودار ہورہی ہیں جو اتنی گہری ہیں کہ قافلہ سالاروں کو نگل سکتی ہیں۔ اس فیصلہ کن مقام پر کج فہمی سے بنائے گئے اس منصوبے سے خطرناک اشارے آنا شروع ہو گئے ہیں جو دور دور سے دکھائی دے رہے ہیں۔ خوف کے حربوں اور پرکشش ترغیب اور لوگوں کیلئے اپنی روح کا سودا کرنےکیلئے سودے بازی کے ذریعےعمران خان کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے سے شروع ہونے والی کارروائی کی بو پھیل رہی ہے۔ ماحول اس بو سے اتنا بوجھل ہے کہ سانس لینا دوبھر ہو چکا ہے ۔

آئیے تسلیم کرتے ہیں کہ جمہوریت نے ملک میں کبھی جڑیں نہیں پکڑیں۔ شروع سے ہی یہ حکومت کی داخلی اور خارجی سازشوں کا شکار رہی ہے جن کا مقصد جمہوری عمارت کو غیر مستحکم کرنا تھا۔ یہاں تک کہ 1958 میں پہلا مارشل لا آیا جب فوج نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔ نئے ملک کی تخلیق سے وابستہ اُمیدوں اور امنگوں کی اس قبر کو واقعی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا گیا۔ اس کے بعد سے پاکستان اشرافیہ کی گرفت کا شکار رہا ہے جس نے مختلف ماسک پہنے ہوئے ہیں۔ ہر ماسک وقت کی ضرورت کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے۔

فوجی حکومتوں سے لے کر ہائبرڈ بندوبست تک لوگ نجات کی امید میں مسلسل تڑپ رہے ہیں۔ اس عمل میں ان کے مصائب بڑھ گئے ہیں۔ اس نے زندگی کو ایک دردناک کہانی میں بدل دیا ہے۔ لیکن ان کے دکھوں کو سننے کیلئےکسی کے پاس بھی وقت نہیں ہے اور کیسے انھیں زندگی کے امکانات سے مسلسل دھوکہ دیا جا رہا ہے۔قوم کو حقوق کے تصور سے محروم کر دیا گیا ہے جو اب صرف حکمرانوں کے ہیں جب کہ یہ اسیر اور عام انسان ان کی انا اور خواہشات کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ اس تعلق کو اگر اب بھی اس انداز میں دیکھا جائے توحکمرانوں اور محکوموں کےدرمیان تعلق، اگر کوئی تھا ، خطرناک حد تک ایک طرف جھک چکا ہے اور محکوموں کا ناطقہ بند ہوتا جا رہا ہے۔ وہ نظام جسکے بارے میں فرض کیا گیا تھا کہ ہر کسی کو مساوی حقوق اور مواقع فراہم کرے گا، صرف اپنی مراعات کا دفاع کر رہا ہے۔ چنانچہ غریب عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے کی بجائے پاکستان لالچ اور بددیانتی کی مثال بن چکا ہے۔

اسی طرح کے ماضی میں کیے گئے تجربات کی طرح یہ تازہ ترین تجربہ بھی کام کرتا دکھائی نہیں دے رہا ہے کیونکہ یہ ملک کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر مسائل کی بڑھتی ہوئی لپیٹ میں آ گیا ہے۔ آئین کے خاتمے اور قانون کی حکمرانی سے انکار کی وجہ سے اس کا منفی تاثر گہرا ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف ٹیم کے دورے اور مختلف ریاستی عہدیداروں، خاص طور پر چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) کے ساتھ ان کی ملاقاتوں نے افواہوں کو جنم دیا ہے۔ لیکن پھر، اس طرح کی غیر معمولی ملاقاتیں بہت سی قیاس آرائیوں کو جنم دیتی ہیں، خاص طور پر جب کچھ بھی واضح نہیں ہوتا۔ جس چیز نے اس ملاقات کو مزید اہم بنا دیا ہے وہ بعد میں چیف جسٹس کی میڈیا والوں سے گفتگو ہے جس میں انہوں نے عدلیہ کی آزادی پر زور دینے کی کوشش کی۔ تاہم، حقائق اس کے برعکس ہیں۔ کچھ عرصے تک عمران خان کے خط کا نوٹس نہ لینے کے بعد چیف جسٹس نے اب اسے سماعت کیلئے مقرر کیے جانے والے آئینی بینچ کے سربراہ کو بھجوا دیا ہے۔ ایسا ہوتا ہے یا نہیں یہ الگ بات ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خط کو نوٹ کیا گیا ہے، اگر اور کچھ نہیں تو، دباؤ اور بے چینی دونوں کا ایک بڑا حصہ ہے۔ جناح ہاؤس پر حملے سے متعلق کیس سے علیمہ خان اور عظمیٰ خان کی رہائی ایک اور اشارہ ہے کہ آخر کار آئی ایم ایف کے دورے پر آئے ہوئے وفد کے تحفظات کو دور کرنے کیلئے ٹھوس کوششیں کی جا سکتی ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ اس نازک مرحلے پر پاکستان ایک معاشی اسیر ہے اور اسے اپنی معیشت کو زندہ رکھنےکیلئے آئی ایم ایف کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ اس میں کوئی بھی رکاوٹ ایک بڑا چیلنج پیدا کر سکتی ہے جس کے تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں۔ اور بھی اشارے ہیں جو طاقت کے شعبے میں بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال کو ظاہر کرتے ہیں۔ حکمران اتحاد کے اندر ٹوٹ پھوٹ، ایک پارٹی کی طرف سے اتحاد سے نکل جانے کی دھمکیاں پریشانی کی ایک ایسی حالت کی نشاندہی کرتی ہیں جو آنے والے ہفتوں اور مہینوں کے دوران سنگین ہو سکتی ہے۔ یقیناً مسلط کردہ مجرموں پر مشتمل ٹولہ جشن منانے میں مصروف ہے جب کہ ملک کی حالت ابتر ہے اور معاشی بحالی کا خواب چکنا چور ہو گیا ہے۔ نئی بوتلوں میں وہی پرانی شراب کام دینے میں ناکام رہی ہے اور اس مرحلے پر دستیاب آپشنز کے بارے میں کچھ سوچا جا سکتا ہے تاکہ بحالی کے عمل کو دوبارہ شروع کیا جا سکے۔ملبے سے ٹکڑوں کو اٹھانا اور انھیں دوبارہ اپنی جگہ پر رکھنا کبھی آسان نہیں ہوتا۔ زخم اور ضربیں اپنے نشان چھوڑ جاتے ہیں، جن میں سے کچھ کبھی نہیں مٹتے، جن سے نظام کی فعالیت متاثر ہوتی ہے۔ اس وقت ملک کا یہی حال ہے۔ ابھی تک بہت سارے تجربات کیے گئے ہیں جس نے اسے کمزور بنا دیا ہے، مستقل طور پر معیشت کیلئے بیرونی مدد پر انحصار ہے۔ کم ہوتے وسائل کے ساتھ یہ مدد کہاں سے اور کیسے آتی رہے گی ایک معمہ ہے۔

یہاں خدشات اور توقعات کی بھرمار ہے:حکمران طبقے کے اندر خدشات ہیں، اور عمران خان کی حکومت گرانے کے بعد سے حکام نے انھیں کو دبانے کی کوشش کی ہے۔ اپنے بنیادی مقصد میں کامیاب نہ ہونے پر اور ملک میں اور بیرون ملک تبصروں میں اضافہ ہونے کی وجہ سے آنے والے ملک کا سیاسی منظر نامہ ڈرامائی طور پر تبدیل ہو سکتا ہے ۔

جمہوریت کے لبادے میں آمریت کو چھپانے کا وقت واقعی آ گیا ہے۔ لیکن دنیا کے سامنے سب بے نقاب ہے کہ اندر کیا ہے۔ یہ ڈھونگ اب مزید کام نہیں دے گا۔ عقل اسی میں ہے کہ اس دکھاوے سے جان چھڑوائی جائے اور عوام کی خواہشات کےمطابق ملنے والے مینڈیٹ کو موقع دیا جائے ۔

(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)

تازہ ترین