• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غاروں، جنگلوں سے نکل کر، شہروں میں آباد ہوکے محلات میں رہنے کو تہذیب یافتہ ہونا نہیں کہتے، بلکہ فرسودگی و قدامت، وحشت و بربریت سے چھٹکارا حاصل کرنا تہذیب یافتگی کہلاتا ہے، معاشرے میں جہالت و غلامی ، ظلم و استحصال کے رویّے، طاقت کا بے جا استعمال عام ہو، تو جنگل ہو یا شہر، غاریں ہوں یا محلات، کیا فرق پڑتا ہے۔ ہم محوِ سفر تھے اور ہماری منزل تھی، ’’جولیاں۔‘‘ کل کی جائے ولیاں، آج کا جولیاں۔

ٹیکسلا کے عجائب گھر سے تقریباً چھے کلومیٹر کے فاصلے پر ’’جولیاں‘‘ کی قدیم خانقاہ کے آثار آج بھی قدرے بہتر حالت میں موجود ہیں۔ گندھارا دَور کے یہ آثار ٹیکسلا سے ہری پور جاتے ہوئے ’’جولیاں‘‘ کے مقام پر ایک بلند ٹیلے پہ دُور ہی سے نظر آجاتے ہیں۔ مستند تاریخی روایات کے مطابق یہاں موجود خانقاہ کی تعمیر سن 2عیسوی میں کی گئی۔ 

یونیسکو کی طرف سے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دی گئی جولیاں کی قدیم بدھ خانقاہ اور یونی ورسٹی کی تاریخی باقیات صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع ہری پور میں محفوظ ہیں۔ دنیا کی قدیم ترین جامعات میں شمار ہونے والی اس خانقاہ میں ہزاروں برس پہلے علم و ادب کی محافل سجا کرتی تھیں، جب کہ گندھارا آرٹ کے نقوش آج یہاں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

جولیاں کی یہ قدیم ترین خانقاہ ایک پہاڑی پر تین سو فٹ کی بلندی پر واقع ہے، جہاں سے علاقے کا خُوب صُورت نظارہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اوپر جانے کے لیے سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچتے ہی آثارِ قدیمہ کا مرکزی دروازہ نظر آتا ہے۔ ہم نے ٹکٹ کاؤنٹر سے ٹکٹ حاصل کیے اور گائیڈ کی رہنمائی میں اس قدیم ترین یونی ورسٹی کے صحن میں جا پہنچے اور صحن میں قدم رکھتے ہی خانقاہ کے دل رُبا منظر میں کھو سے گئے۔ 

ہری پور کے سرسبز و شاداب پہاڑوں کے دامن میں، ماضی کے یہ آثار دیکھ کر سب سے پہلا احساس یہی جاگا کہ درس گاہ اور خانقاہ تعمیر کرنے والوں نے واقعی خُوب صُورت و پُرفضا مقام کا انتخاب کیا تھا۔ اس وقت جب دنیا غلامی، استحصال اور جہالت میں غرق تھی، یہاں فلسفے، سیاسیات، منطق اور مذہب پر ایسی ایسی کتابیں تحریر کی گئیں، جو آگے چل کر انسانیت کا اثاثہ ٹھہریں کہ جن سے آج بھی انسان استفادہ کررہا ہے۔ 

فنونِ لطیفہ اور ادب کے ذریعے یونانیوں نے دنیا کو اس قدر علم دیا کہ اُس کے نقوش و اثرات آج بھی عالمی علم و ادب سمیت ہر شعبے پر نظر آتے ہیں۔ معروف یونانی مؤرخ Megasthenes نے اپنی کتاب ’’انڈیکا‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ ٹیکسلا دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے۔ اسی طرح معروف محقّق، عقیل احمد روبی نے بھی اپنی کتاب ’’یونان کا ادبی ورثہ‘‘ میں لکھا کہ ’’200سال میں ایتھنز کے ڈراما نگاروں نے 4000ڈرامے لکھے، جن میں سے صرف پچاس ہی ہم تک پہنچے ہیں۔ 

اُن کا بیش تر علمی سرمایہ ضائع ہوچکا ہے، آج اگر وہ مل جائے، تو عالمی ادب کا منظر ہی بدل جائے۔‘‘ اس تناظر میں غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ ان یونانیوں کے علم کا یہ معیار تھا، تو اُس وقت ٹیکسلا کے لوگوں کے علم کا کیا مقام ہوگا کہ جسے دیکھ کر یونانی بھی دنگ رہ گئے تھے۔

جولیاں کے کھنڈرات دو بڑے حصّوں پر مشتمل ہیں۔ اوّل، ایک بڑا اسٹوپا، دوم درس گاہ۔ بڑا اسٹوپا کافی حد تک تباہ ہوچکا ہے، جب کہ اس کے ِارد گرد 21اسٹوپے اب بھی موجود ہیں۔ ان میں سے بعض کے متعلق ماہرین کا خیال ہے کہ یہ درحقیقت وہاں مدفون راہبوں کی قبروں پر بنائے گئے ہیں۔ ان اسٹوپوں میں موجود مجسّمے محفوظ ہیں اور بعض میوزیم میں رکھنے کے لیے یہاں سے منتقل بھی کردیے گئے ہیں، جب کہ درس گاہ کی عمارت کا ایک بڑا حصّہ، جو پتھر کے بڑے بڑے ٹکڑوں اور مٹّی سے بنایا گیا ہے، درجنوں ایسے چھوٹے کمروں پر مشتمل ہے، جن میں قریب سولہ سترہ صدیاں قبل وہاں مذہب، فلسفے اور روحانیت کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ رہا کرتے تھے۔ یہاں واقع درس گاہ، ایک تالاب اور طالب علموں کے لیے متعدد کمروں پر مشتمل تھی۔

پہلی منزل پر 28کمرے، جب کہ دوسری منزل پر بھی اتنے ہی کمرے بنائے گئے تھے۔ دوسری منزل تک جانے کے لیے پتھر کے زینے اب بھی موجود ہیں۔ بعض کمروں کے سامنے بدھ کے مجسّمے بھی موجود ہیں۔ زمین سے کچھ اونچے بنائے گئے ان رہائشی کمروں میں سے اب کسی کی بھی چھت باقی نہیں، لیکن دیواریں اب تک محفوظ ہیں۔ مَیں اُن کمروں کے درمیان چہل قدمی کررہا تھا، جہاں کبھی چانکیہ کوٹلیا رہتا تھا، جس کی کتاب، ارتھ شاستر، سیاست میں بلند مقام رکھتی ہے۔ وہاں پانینی بھی رہتا تھا، جسے دنیا کا پہلا گرامر دان اور بابائے لسانیات کہا جاتا ہے۔

کافی دیر تک جولیاں میں واقع اس قدیم ترین خانقاہ کے تاریخی کمرے، صحن اور مرکزی تالاب کے گرد چہل قدمی کے بعد ہم خارجی دروازے کی جانب واپس پلٹنے لگے، تو تصور میں ہزاروں برس پہلے کی زندگی کی چہل پہل نظر آنے لگی۔ 

علمی محفلیں برپا تھیں، مختلف علوم پر مباحثے ہو رہے تھے اور دنیا بھر سے یہاں آنے والے سیکڑوں طالبانِ علم، پیٹ کی بھوک اور پیاس سے بے خبر، اپنے گھروں اور والدین سے بہت دُور، پہاڑوں کے دامن میں، عِلم کی پیاس بجھاتے نظر آرہے تھے اور یوں محسوس ہو رہا تھا، جیسے وقت پلٹ آیا ہو۔ 

مگر یہ محض تصوّر تھا،حقیقت تو یہ ہے کہ اب یہاں دن بھر صرف سیّاح آتے ہیں، کچھ وقت گزارتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ اب یہاں علم و ادب کی محفلیں سجتی ہیں، نہ طالبانِ علم اپنی علمی پیاس بجھاسکتے ہیں۔ اب تو صرف بوسیدہ پتھر، ماضی کے نقوش اور آثار ہیں۔