• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مُلک کے ایک مشہور معالج نے ایک سروے کے دوران آٹھ سے بارہ سال تک کے سیکڑوں بچّوں سے یہ سوال کیا کہ ’’آپ بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے ہیں؟‘‘ اُن میں سے99.9 فی صد نے نام وَر کھلاڑیوں، مشہور اداکاروں، گلوکاروں، ماڈلز اور اِسی قبیل کے دیگر افراد کو اپنا رول ماڈل قرار دیتے ہوئے اُن جیسا بننے کی خواہش ظاہر کی۔ 

البتہ صرف ایک بچّی خاتونِ جنّت، حضرت فاطمۃ الزہراؓ کے نقشِ قدم پر چلنے کی تمنّا رکھتی تھی۔ اِس سروے کے نتائج عصرِ حاضر کے بچّوں کے مائنڈ سیٹ کی عکّاسی کرتے ہیں کہ وہ کس قسم کے نظریات و خیالات کے حامل ہیں اور مستقبل میں کیا بننا چاہتے ہیں۔ 

تاہم، افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہماری نئی نسل کی رول ماڈل وہ شخصیات ہیں کہ جنہیں ہمارے میڈیا پر بہت زیادہ گلیمرائز کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ ان شخصیات کے طرزِ زندگی، پہناوے، ہیئر اسٹائلز، اندازِ گفتگو اور چال ڈھال کو اِس انداز سے بڑھا چڑھا کر اور تواتر کے ساتھ میڈیا پر پیش کیا جاتا ہے کہ اُن کا کردار نئی نسل کے دِل و دماغ پر نقش ہو کے رہ جاتا ہے اور اسی کے نتائج اُن کی خواہشات کی صُورت ہمارے سامنے آ رہے ہیں۔

بہ حیثیتِ مسلمان ہمارے لیے یہ صُورتِ حال خاصی تشویش ناک ہے کہ ہماری نئی نسل کے آئیڈیل ایسے افراد ہیں کہ جن کا مُلک و قوم کی ترقّی و خوش حالی میں کوئی خاص کردار نہیں۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ آج کل کے بچّوں کے رول ماڈل نبیٔ اکرم حضرت محمدﷺ ہیں اور نہ صحابہ کرامؓ۔ وہ امام ابوحنیفہؒ سا بننا چاہتے ہیں اور نہ امام مالکؒ جیسا اور نہ ہی قائدِ اعظمؒ، علاّمہ اقبال، راشد منہاس، ڈاکٹرعبد القدیر خان اور عبدالستّار ایدھی اُن کے رول ماڈلز ہیں۔ 

وہ صرف ایک ’’سیلبریٹی‘‘ بننا چاہتے ہیں، جس کی شُہرت و مقبولیت قطعاً عارضی ہوتی ہے، مگر ہم اِس حقیقت سے بھی نظریں نہیں چُرا سکتےکہ ہم ہی نے غیر ذمّےداری اور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی نئی نسل کے سامنے ’’ہیروز‘‘ کی جو تصویر پیش کی، وہ بڑے ہو کر اُسی میں حقیقت کا رنگ بھرنا چاہتے ہیں اور یہ کوئی اَن ہونی بات نہیں۔ البتہ اس دَور میں ایک بچّی کی جانب سے خاتونِ جنّت، حضرت فاطمۃ الزہراؓ کے نقشِ قدم پر چلنے کی خواہش کے اظہار کو غیرمعمولی کہا جا سکتا ہے۔

ہم اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں، تو پتا چلے گا کہ مذہب سے دُوری، تعلیم سے بے رغبتی، فیشن کی چاہ، نفس پرستی، طمع، گلا کاٹ مسابقت، حسد اور جلن جیسے منفی جذبات نے ہماری زندگیاں بہت تلخ و تُرش کردی ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی مہربان ذات آپ کے درد دِل کا اپنی نرمی و گرمی سے مداوا کرے، آپ کی تکالیف دُور کرنے کے لیے آپ پر نظرِ کرم کرے، تو آپ کے کیا احساسات ہوں گے؟ 

یقیناً ایسے میں سکون و اطمینان کے لطیف سائےاپنی امان میں لے لیں گے، تو کیوں ناں آپ ہی وہ مہربان ہستی بننے کی کوشش کریں کہ جس کی رفاقت کا ہر شخص متمنّی ہو۔ اگر آپ دُنیا کی عظیم شخصیات کی مانند اعلیٰ کردار کا مظاہرہ نہیں کرسکتے، تو کم از کم اپنے گفتار اور اخلاق ہی سے اَوروں کے دل جیتنے کی کوشش کریں۔

دُنیا میں اَن گنت پیشے رائج ہیں اور بہ حیثیتِ صارف، بچپن سے بڑھاپے تک ہمارا مختلف پیشوں سے وابستہ افراد سے سابقہ پڑتا ہے۔ اس دوران ہم اُن کے مزاج، مذاق اور رویّوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ ایک دُکان دار سے لے کر ایک ڈاکٹر تک کا طرزِعمل ہمیں اُس کے مزاج سے رُوشناس کرواتا ہے۔ 

اِن میں سے بیش تر ایسے بھی ہوتے ہیں کہ آپ ذرا بھی اُن کے مزاج کے خلاف بات کریں، اُن کی قوّتِ برداشت جواب دے جائے گی اور وہ فوراً تلخ کلامی پر اُتر آئیں گے۔ لیکن کیا ہرایک سے بداخلاقی کا مظاہرہ کوئی دُرست عمل ہے؟ ہرگز نہیں۔ 

اِس طرزِ عمل کی بجائے ہم سب کو مہربان بننا چاہیے کہ یہ نرمی وملائمت ہماری شخصیات میں مثبت تبدیلی پیدا کرنے کے ساتھ ہماری زندگیوں کو بھی خوش گوار بنا دے گی۔ ہمارے اِس مہرباں رویّے سے خوشیوں کے رنگ چھلکیں گے اور پھر اُن کی دھنک پورے ماحول پر چھا جائے گی۔ یوں بھی قوسِ قُزح کِسے بُری لگتی ہے، بلکہ اُس کا تو سبھی کو شدّت سے انتظار رہتا ہے، اُسے دیکھنے والی ہر آنکھ بےاختیار ہی مُسکرا اُٹھتی ہے۔ یاد رہے کہ آپ کا مہرباں رویّہ آپ کے پیشے کو بھی اکرام دے گا۔ 

سو، آپ کو ہر ایک سے اِخلاص، شائستگی اور خوش مزاجی سے پیش آنا چاہیے کہ آپ کا یہ رویّہ آپ کو ہزاروں افراد میں نمایاں مقام عطا کرتا ہے۔ اللہ جانے، ہم کیوں اِن دل موہ لینے والی عادات کو اپنانے سے گریز کرتے ہیں، اِنہیں اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ پتا نہیں، کیوں …؟؟