پاکستان میں پانی کے وسائل اور ان کی تقسیم ہمیشہ سے ایک حساس مسئلہ رہا ہے، خاص طور پر دریائے سندھ جو کہ ملک کی زراعت اور معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں حکومت نے دریائے سندھ پر چھ نئی نہریں بنانے کا اعلان کیا ہے، جس نے سندھ کے عوام، کسانوں اور پانی کے ماہرین میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔ ان نہروں کی تعمیر کا مقصد زیادہ زرعی پیداوار اور آبپاشی کے مسائل حل کرنا بتایا جا رہا ہے، مگر سندھ کیلئے اس کے ممکنہ منفی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سندھ کی تاریخ پانی کے مسائل سے جڑی ہوئی ہے۔
1947ء کے بعد سے دریائے سندھ کے پانی پر مختلف ڈیموں، بیراجوں اور نہری نظام کے ذریعے کنٹرول حاصل کیا گیا۔ اس دوران سندھ کے حصے کے پانی میں کمی آتی رہی، جس کی وجہ سے زراعت اور ماحولیاتی نظام شدید متاثر ہوا۔ تاریخی طور پر سندھ کا دریائے سندھ سے گہرا تعلق رہا ہے، کیونکہ یہاں کی زراعت، معیشت اور ماحولیاتی توازن اسی دریا پر منحصر ہے۔ چھ نئی نہروں کی تعمیر پنجاب اور خیبرپختونخوا کیلئے فائدہ مند ہوسکتی ہے، مگر سندھ کیلئے اس کے تباہ کن اثرات واضح ہیں۔
پہلا اور سب سے بڑا مسئلہ سندھ کے حصے کے پانی میں مزید کمی کا ہے۔ پہلے ہی سندھ کے مختلف اضلاع، خاص طور پر ٹھٹھہ، بدین اور سجاول جیسے زیریں سندھ کے علاقے پانی کی قلت کی وجہ سے تباہ حالی کا شکار ہیں۔ اگر مزید پانی اوپر کی سطح پر روک لیا گیا تو یہ علاقے مزید بنجر ہو جائیں گے، جس سے ہزاروں ایکڑ زمین غیر زرخیز ہو جائے گی۔
دوسرا مسئلہ ماحولیاتی توازن کا ہے۔ دریائے سندھ کا پانی سمندر میں گر کر قدرتی ماحول کو برقرار رکھتا ہے۔ پہلے ہی کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں پانی کی شدید قلت ہے، جس کی وجہ سے سمندری پانی تیزی سے اندرونی علاقوں میں داخل ہو رہا ہے اور لاکھوں ایکڑ زرخیز زمین سمندری پانی کے باعث ناقابل کاشت ہو چکی ہے۔ اگر مزید پانی روک لیا گیا تو یہ عمل مزید تیز ہو جائے گا اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں زمین کی زرخیزی مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ تیسرا مسئلہ سندھ کی زراعت سے جڑا ہوا ہے۔ سندھ کے کسان پہلے ہی پانی کی کمی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ کپاس، گندم، چاول اور دیگر فصلیں مناسب پانی کی فراہمی کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر اوپر کی سطح پر مزید نہریں بنا کر پانی کا بہاؤ روکا گیا تو سندھ کے کاشتکاروں کو مزید نقصان ہوگا، جس کا اثر نہ صرف مقامی معیشت پر بلکہ پورے ملک کی معیشت پر بھی پڑے گا۔ چوتھا اہم مسئلہ پانی کی تقسیم کے معاہدوں پر عملدرآمد کا ہے۔
1991 ءکے آبی معاہدے کے تحت تمام صوبوں کو ایک متعین مقدار میں پانی ملنا تھا، مگر حقیقت میں سندھ کو ہمیشہ کم پانی فراہم کیا گیا۔ اب اگر مزید چھ نہریں بنا دی گئیں تو اس معاہدے کی مزید خلاف ورزی ہوگی، جو کہ سندھ کے عوام کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔ یہ معاملہ صرف پانی کی کمی تک محدود نہیں، بلکہ اس کے سیاسی اور سماجی اثرات بھی بہت گہرے ہوں گے۔ سندھ میں پہلے ہی احساس محرومی پایا جاتا ہے کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہو رہی۔ اگر اس احساس کو مزید تقویت ملی تو یہ اندرونی بے چینی اور انتشار کو بڑھا سکتا ہے۔ پانی کے معاملے پر سندھ میں ہمیشہ شدید ردعمل دیکھنے کو ملا ہے، اور اگر یہ منصوبے زبردستی لاگو کیے گئے تو سندھ میں احتجاج اور سیاسی مزاحمت مزید بڑھ سکتی ہے۔
ان تمام مسائل کے پیش نظر سندھ کے عوام، کسانوں، ماحولیاتی ماہرین اور سیاسی رہنماؤں کو مل کر اس منصوبے کیخلاف آواز بلند کرنی چاہئے۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت تمام صوبوں کو برابری کی بنیاد پر پانی فراہم کرے اور سندھ کے پانی کے حقوق کو پامال نہ کرے۔ مزید برآں، اگر حکومت واقعی پانی کے مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے تو اس کا بہتر طریقہ پانی کے ضیاع کو روکنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہے، نہ کہ مزید نہریں بنا کر ایک اور بحران پیدا کرنا۔
سندھ کے عوام کا مطالبہ ہے کہ پہلے سے موجود پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے، ماحولیاتی توازن کے اثرات کا جائزہ لیا جائے اور سندھ کے ساحلی علاقوں کو مزید تباہی سے بچایا جائے۔ سندھ کے باسیوں کیلئے دریائے سندھ صرف پانی کا ذریعہ نہیں بلکہ ان کی زندگی، ثقافت اور شناخت کا حصہ ہے، اور اس پر کسی بھی قسم کی زیادتی کو کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔