• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابنِ نصر ناصر، اوچ شریف

صحرائے چولستان اور اس کے قلعے، اپنے مقام اور محلِ وقوع کے اعتبار سے ’’عباسیوں‘‘ کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔ تاہم، جب بہاول پور میں محلّات تعمیر ہوگئے، تو وہ وہاں منتقل ہوگئے۔ صحرائے چولستان، روہی کے نام سے بھی مشہور ہے۔ بہاول پور سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تقریباً 900مربع میل پر محیط یہ صحرائی علاقہ جنوب مشرق میں راجستھان سے جاملتا ہے۔

یہاں کے باسی چولستانی لہجے کی سرائیکی بولتے ہیں، جو راجستھانی بولیوں سے بھی بہت حد تک ملتی جلتی ہے۔ مقامی باشندوں کے مسکن، صحرائے چولستان کے ٹوبھوں کے اِردگرد قائم ہیں۔ واضح رہے ’’ٹوبھا‘‘ پنجابی زبان میں ’’پانی کے تالاب‘‘ کو کہتے ہیں۔ برسات کے دِنوں میں یہ ٹوبھے پانی سے بھرجاتے ہیں۔

بہاول پور کے تین اضلاع، بہاول پور، بہاول نگر اور رحیم یار خان کے راستے صحرا کی جانب چولستان قلعوں تک جاتے ہیں۔ یہاں سے کبھی ہاکڑہ نامی دریا گزرتا تھا، جس کا ذکر ’’رگ وید‘‘ میں سرسوتی کے نام سے ملتا ہے۔ دریائے ہاکڑہ سے متعلق کئی روایات مشہور ہیں۔ ایک روایت کے مطابق، یہ دریائے ستلج کی پرانی گزرگاہ تھی، جب کہ بعض کے نزدیک ہاکڑہ ایک الگ دریا تھا، جس میں ستلج اور جمنا کا پانی آتا تھا۔ 

کرنل منچن، برطانوی دورِ حکومت میں بہاول پور میں پولیٹیکل سیکریٹری رہے۔ وہ اپنی کتاب ’’بہاول پور‘‘ میں ایک جگہ دریائے ہاکڑہ سے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’ہاکڑہ نامی ایک نشیب، صحرائی حصّے کو وسطی علاقے سے جدا کرتا ہے، لیکن ریاست کے جنوبی حصّے میں عظیم صحرائے ہند سے اُڑکر آنے والے ریت نے ٹیلوں کی شکل اختیار کرنے کے بعد اس دریائی گزرگاہ کی تقریباً تمام نشانیاں مٹاڈالیں۔‘‘

بہرحال، حقیقت جو بھی ہو، یہ بات تو ثابت ہے کہ دریائے ہاکڑہ کی رونق سے کبھی یہ علاقہ سرسبز و شاداب ہوا کرتا تھا۔ یہاں سے سات دریا گزرتے تھے، جو وقت کے ساتھ ساتھ بنجر ہوتے چلے گئے۔ اس علاقے کو چولستان کہنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ترک، صحراکو ’’چول‘‘ کہتے ہیں۔ چوں کہ یہ پورا علاقہ صحرائی ہے، اس لیے اسے ’’چولستان‘‘ کہا جانے لگا۔ 

یہاں کے باشندے کچھ عرصہ قبل تک صرف بارش کے پانی سے گزر بسر کیا کرتے تھے۔ تاہم، اب یہاں پائپ لائنز کے ذریعے پانی پہنچایا جاتا ہے۔ بارش کا یہ پانی ٹوبھو میں جمع ہوتا ہے، جو کھیتوں کی زمینوں کو سیراب کرنے کے علاوہ انسانوں کے کھانے پینے اور جانوروں کے لیےبھی استعمال کیا جاتا ہے۔

چولستان کے جنگلات میں سور، لومڑ، پاہڑہ، ہرن، کالا ہرن، نیل گائے اور جنگلی گدھے کے علاوہ عقاب سمیت متعدد اقسام کے پرندوں کی نسلیں اور تقریباً دس قسم کے سانپ پائے جاتے ہیں۔ صحرائے چولستان میں آج جہاں زمینیں آباد ہیں، پکّی سڑکیں، بازار اور مکانات بن چکے ہیں، وہیں پرانے طرز کے مکانات، ٹیلے اور ٹوبھے بھی موجود ہیں۔ کہیں کہیں تو سڑک کی دونوں جانب خُوب صُورت درخت سیّاحوں کا استقبال کرتے نظر آتے ہیں۔

قلعہ دراوڑ

یوں تو صحرائے چولستان میں لگ بھگ 29قلعوں کے آثار باقی ہیں،جو عہدِ رفتہ کی یاد دلاتے ہیں۔ تاہم، یہاں ہم اوچ شریف سےقریباً 73کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تاریخی ’’قلعہ دراوڑ‘‘ کا ذکر کریں گے۔ بہاول پور شہر سے 130 کلومیٹر دُور جنوب کی سمت واقع اس قلعے کی خُوب صُورتی دیکھنے کے لائق ہے۔ اس کے چالیس برج ہیں، جو صحرائے چولستان میں چاروں طرف میلوں تک نظر آتے ہیں۔ 

یہ دراصل راجپوتوں کا قلعہ تھا، جس کی تعمیر9ویں صدی عیسوی میں کی گئی۔ پانچ فٹ موٹی دیواریں اس قلعے کو آج بھی مضبوط اور قائم و دائم رکھے ہوئے ہیں۔ صدیاں بیت جانے کے باوجود اس قلعے کی مضبوطی اور پائے داری، سیّاحوں اور ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے لیے آج بھی دل چسپی کا محور ہے۔ مشرق کی جانب موجود وسیع و عریض مسجد، سطح زمین سے کافی بلند ہے، اس کی سیڑھیاں سرخ رنگ کی اور دیواروں کا رنگ سفید ہے۔ 

مسجد کے مشرق میں ایک گنبد والی عمارت کے درمیان خارجی دروازہ، جب کہ دوسری جانب دو کمرے ہیں۔ اسی طرح ایک دروازہ شمال میں بھی موجود ہے۔ مسجد کی عمارت میں تین گنبد اور چار مینار ہیں۔ جب کہ درمیانی دروازے کے اوپر ’’افضل الذکر لا الٰہ الا اللہ‘‘ لکھا ہے۔ جس کے نیچے شمال کی جانب 1265ہجری کا سال درج ہے۔ نیچے فارسی میں دو سطریں درج ہیں۔ مسجد کا صحن کافی وسیع ہے۔ جب کہ عمارت کی چوڑائی 16فٹ اور لمبائی 128فٹ ہے۔

قلعہ دراوڑ کے نام اور تعمیر کے بارے میں مؤرخین کی آرا مختلف ہیں۔ کچھ مؤرخین کا خیال ہے کہ اس قلعے کو نویں صدی میں رائے ججا نے تعمیر کروایا، جو ایک راجپوت حکم ران تھا۔ بعض مؤرخین کے مطابق قلعے کو راول دیو راج بھاٹی نے تعمیر کروایا، جو جیسلمیر اور بہاول پور ریاست کا خودمختار حکم ران تھا۔ اس لیے قلعے کو دیوراول کہا جانے لگا۔ 

وقت کے ساتھ ساتھ یہ دیو راول سے دیوراور اور پھر دراوڑ بن گیا، جو اس کا موجودہ نام بھی ہے۔ ماضی میں یہ قلعہ جیسلمیر ریاست کا حصّہ تھا۔ 1733ء میں نواب آف بہاول پور، نواب محمد خان اوّل نے اس قلعے پر حملہ کیا اور راجا راول سنگھ کو شکست دے کر یہاں اپنی حاکمیت قائم کی۔ یوں یہ قلعہ ریاست بہاول پور کا حصّہ بن گیا۔ 

جیسلمیر کے راجا راول سنگھ نے 1747ء میں قلعے پر دوبارہ قبضہ جمالیا، لیکن 1808ء میں نواب آف بہاول پور نے دوبارہ قلعے پر حملہ کرتے ہوئے راجہ راول سنگھ کو شکست دی اور ایک بار پھر یہ قلعہ ریاست بہاول پور کا حصّہ بن گیا۔ اس کے بعد سے یہ قلعہ ان کے خاندان کی حکم رانی میں رہا۔ 

عباسیوں نے اس کی تعمیرات میں بیش قیمت اضافہ کیا، اس میں موتی مسجد بھی شامل ہے، جسے دلی کے لال قلعہ میں واقع مسجد کے مماثل مغلیہ فنِ تعمیر پر بنایا گیا۔ ساتھ ہی اس قلعے سے ایک خفیہ سرنگ بھی نکالی گئی جو نور محل سے منسلک ہوتی تھی اور عباسی نوابوں کی قلعے میں آمد ورفت یہیں سے ہوتی تھی۔

عباسی خاندان کی ملکیت، یہ قلعہ عرف عام میں قلعہ دراوڑ کی نام سے جانا جاتا ہے، مگر آزاد ریاستِ بہاول پور کے آخری حاکم، نواب سر صادق محمد عباسی کے نواسے اور قلعے کے نگہبان، صاحب زادہ قمر الزماں عباسی کے مطابق، اس کا اصل نام قلعہ ’’ڈیراور‘‘ ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں بھی یہی نام استعمال کیا ہے۔ اونچی دیواروں پر نصب ٹھوس لوہے کے اونچے، چوڑے مرکزی دروازے سے ہاتھی بھی بہ آسانی گزر جایا کرتا تھا۔ 

ریت کے وسیع و عریض میدان میں کھڑا یہ قلعہ بہت منفرد دکھائی دیتا ہے۔ دروازے کے عین سامنے ایک قدیم مسجد بھی ہے، جو اس کے حُسن کو چار چاند لگاتی ہے۔ قلعہ دراوڑ آج بھی عباسی خاندان کی ملکیت ہے اور قمر الزماں عباسی اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ انھوں نے قلعے کی تاریخ پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ قمرالزماں عباسی کے مطابق، ’’قلعہ ڈیراور کے پاس سے ایک دریا گزرتا تھا، جسے گھارا یا ہاکڑہ کہا جاتا تھا۔

قلعہ ڈیراور میں آباد ہندو، سکھ، مسلمان سب میں میل ملاپ تھا۔ قلعے کے باہر آباد لوگوں میں مسلمان بھی تھے، ہندو اور سکھ بھی، مگر ان میں ایسا میل ملاپ تھا کہ مذہب کی کوئی تفریق نہ تھی۔ ہندو عہد میں ڈیراور کی آبادی بقدرِ ضرورت فوجی سپاہیوں تک محدود رہی۔ 

عباسی فرمان رواؤں کے دور میں اس میں اضافہ ہوا۔ یہاں زیادہ تر آبادی قلعے کے مغربی جانب تھی، جس میں ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد رہائش پذیر تھے۔ قلعے کے مشرقی جانب بارانی پانی جمع کرنے کے لیے تالاب اور کنویں بنائے گئے تھے۔‘‘

مرکزی دروازے سے قلعے کے اندر داخل ہوں، تو سامنے ایک وسیع و عریض احاطہ ہے، جہاں ایک توپ نصب ہے۔ اس کے عین سامنے نظر آنے والی عمارت، غالباً بارہ دری تھی، جو محل کے بیرونی حصّے میں واقع تھی۔ قلعے کے مرکزی دروازے پرنصب سائن بورڈ پر اس کی مختصر تاریخ درج ہے۔ 

جس کے مطابق ’’یہ قلعہ 9ویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا اور جٹ بھٹی حکمران ’’دیواراول‘‘ نے اسے اپنے نام دیا۔ بعدازاں کثرتِ استعمال سے اس کا نام ’’دراوڑ‘‘ زبان زدِ عام ہوگیا۔ موجودہ قلعہ نواب صادق محمد خان نے 1733ءمیں، جو مختلف اوقات میں ریاست بہاول پور کے زیر تسلّط رہا، مربع شکل میں تعمیر کیا۔ 

اس کی بیرونی دیواریں 674سے684فٹ تک لمبی، زمین سے تقریباً 100فٹ بلند ہیں۔ تمام 39بلند برج بیرونی اور اندرونی جانب پختہ اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے۔ قلعے کا مرکزی دروازہ بھی بیرونی دروازے کی طرح ہے اور اس دروازے کے دونوں جانب نشیب میں ایک سرنگ نکلتی ہے، جب کہ اس کے ساتھ کے کمروں سے اوپر سیڑھیاں جاتی ہیں۔‘‘

قلعہ دراوڑ کی 30میٹر بلندوبالا بل کھاتی مربع شکل کی دیواریں، قلعے کے جاہ و جلال کی ایک عظیم داستان بیان کرتی ہیں۔ مغل طرزِ تعمیر کے اس شاہ کار قلعے میں فارس، تیموری اور ہندو طرزِ تعمیر کی مشترک خوبیاں نظر آتی ہیں۔ نظری اعتبار سے اسے دیوارِ سندھ، رنی کوٹ سے مشابہ قلعہ قراردیا جاسکتا ہے۔ نیز، صحرائے چولستان کے عین درمیان واقع اس قلعے کا طلسمی نظارہ حیران کُن ہے کہ اس کی سرمئی، کتھئی اور سنہری رنگت ماحول کو سحر زدہ سا کر دیتی ہے۔

’’قلعہ دراوڑ‘‘ 9 ویں صدی کا شان دار تعمیراتی شاہ کار

قلعہ دراوڑ میں دوسرے قلعوں کے مقابلے میں بیرونی آرائش کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے، جو حکم رانوں کے جاہ و جلال کی عکّاسی کرتی ہے کہ وہ دفاع و زیبائش کے حوالے سے کتنے حسّاس تھے۔ اندرونی طور پر مضبوط دفاعی قلعے کا اندازہ اس کی موٹی دیواروں اور بلند و بالا میناروں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ 

کئی صدیاں بیت جانے کے باوجود یہ قلعہ اپنی مکمل رعنائیوں کے ساتھ موجود ہے۔ بیرونی دیواروں کو پکّی اینٹوں سے آراستہ کیا گیا ہے، جو اُوچ شریف سے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ تک ہاتھوں کی قطار کی صُورت یہاں پہنچیں، کیوں کہ اُس دَور میں نقل و حمل کے ذرائع ناکافی تھے۔ یہ مقامی ماہرینِ تعمیرات کی مشترکہ کاوش ہے اور یہ اپنے حاکم سے وفاداری و ایثار کی بھی زرّیں مثال ہے۔

قلعے کے اطراف، برج نما فصیلوں کو موٹی اور پکّی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے، جس سے نہ صرف قلعہ بندی ممکن ہوئی، بلکہ دیکھنے والوں کے لیے بھی یہ دیواریں ایک دل فریب منظر پیش کرتی ہیں۔ اس کی کُل42 فصیلیں تھیں، جن پر جیومیٹری کی اشکال میں کندہ آرائشی کام اُس دور کے ماہرینِ تعمیرات کے ذوق کی اعلیٰ مثال ہے۔ اس کے اندر فوجیوں اور شاہی خاندان کی رہائشیں تھیں۔ 

قلعے کے کشادہ برآمدے کے عقب میں کمروں کی ایک قطار ہے، جو مشرق میں ایک دوسری بارہ دَری میں کُھلتی ہے۔ اس بارہ دری کی دیواروں اور چھتوں کی رنگین لکڑی کے ٹائلز اور پتھروں پر کی گئی کشیدہ کاری کے آثار آج بھی باقی ہیں۔ رہائش گاہوں تک پہنچنے سے قبل ایک چبوترا نما عمارت نظر آتی ہے، جس کے ایک طرف برآمدوں کے پیچھے کمرے تعمیر کیے گئے تھے۔ یاد رہے، ان برآمدوں کے ستونوں سے اینٹیں اس حد تک نکل چکی ہیں کہ یوں لگتا ہے کسی بھی وقت زمین بوس ہوجائیں گے۔

قلعہ دراوڑ آج بھی سیّاحوں کو دعوتِ نظارہ دیتا اور اس حقیقت کا اظہار کرتا نظر آتا ہے کہ اس میں ماضی کی کئی داستانیں پوشیدہ ہیں۔ برطانوی ادوار میں یہاں قیدیوں کو قید رکھا جاتا تھا اور یہی وہ جگہ ہے، جہاں کچھ قیدیوں کو پھانسی بھی دی گئی۔

روہی کے اس ریگستان میں قلعہ دراوڑ جیسے متعدد قلعے ہیں، جو عدم توجہی کا شکار ہیں۔ تاہم، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستان کے سیاحتی مقامات میں چولستان کی پہچان قلعہ دراوڑ ہی ہے۔ صحرائے چولستان میں ہر سال منعقدہ جیپ ریلی کا آغاز بھی دراوڑ قلعے ہی سے ہوتا ہے۔ 

یہ ریلی تین اضلاع سے گزرتی ہے، جس میں لوگوں کی بڑی تعداد شرکت کرتی ہے۔ بلاشبہ، یہ قلعے آثارِ قدیمہ کی یادگار کی حیثیت رکھتے ہیں، جنھیں دنیا بھر کے تاریخی وَرثے میں شمار کیا جاتا اور ان کی تاریخی عظمت کو تسلیم کیا جاتا۔

چولستان میں واقع 29 تاریخی قلعے

1۔قلعہ پھلڑا، قائم پور، 2۔ قلعہ مروٹ، 3۔ قلعہ جام گڑھ، مروٹ، 4۔ قلعہ موج گڑھ، مروٹ، 5۔ قلعہ مبارک پور، چشتیاں، 6۔قلعہ فتح گڑھ، امروکہ بہاول نگر، 7۔قلعہ میر گڑھ، مروٹ، 8۔قلعہ خیرگڑھ، 9۔قلعہ بہاول گڑھ، 10۔قلعہ سردار گڑھ، ولہر، 11۔قلعہ مچھلی، 12۔قلعہ قائم پور، 13۔قلعہ مرید والا، 14۔قلعہ دراوڑ، 15۔قلعہ چانڈہ کھانڈہ، 16۔قلعہ خان گڑھ،17۔قلعہ رکن پور، 18۔قلعہ لیارا، صادق آباد، 19۔قلعہ کنڈیرا، صادق آباد، 20۔قلعہ سیوراہی، صادق آباد،21۔قلعہ صاحب گڑھ، رحیم یارخان،22۔قلعہ ونجھروٹ، 23۔قلعہ دھویں، 24۔قلعہ دین گڑھ، 25۔قلعہ اوچ، 26۔قلعہ تاج گڑھ، رحیم یارخان، 27۔قلعہ اسلام گڑھ، رحیم یار خان، 28۔ قلعہ میو مبارک، رحیم یار خان، اور 29- قلعہ ٹبّہ جیجل، حاصل ساڑھو بہاول نگر میں ہیں۔ 

ان کے علاوہ بھی دیگربہت سی تاریخی عمارتیں، محلّات اب بھی باقی ہیں، جب کہ بہت سی تاریخی عمارات کا وجود مِٹ چُکا ہے۔