• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ: اسباب اور سدِباب

ایم شمیم نوید

اِن دنوں ہر محفل، تقریب اورملاقات میں اسٹریٹ کرائمز کا ذکر عام ہے۔ بات چاہے کسی بھی موضوع پر ہورہی ہو، تان لُوٹ مار کے واقعات پر جا کر ٹوٹتی ہے۔ جب آئے روز چوری، ڈکیتی اور چھینا جھپٹی کی وارداتیں ہو رہی ہوں، ہر جگہ رہزن دندناتے پِھر رہے ہوں اور امنِ عامّہ کی صُورتِ حال اس قدر ناقص ہو کہ کسی کو بھی اپنی جان و مال کے تحفّظ کا یقین نہ ہو، تو پھر اِس موضوع کا زبانِ زدِعام ہونا کوئی اَن ہونی بات بھی نہیں۔ 

نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ آج عام شہری گھر سے نکلتے ہوئے خُود کو خوف، دہشت اور عدم تحفّظ کا شکار محسوس کرتا ہے۔ اُسے قدم قدم پر اپنی جان و مال کے نقصان کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جرائم پیشہ عناصر مختارِ کُل بن چُکے ہیں اور عوام اُن کے ہاتھوں یرغمال بنے بےبسی کی زندگی گزاررہے ہیں۔ 

اِن لٹیروں کی دِیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی وقت کسی کو بھی لُوٹ کر چلے جاتے ہیں اور اِنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ گرچہ بعض وارداتوں کے دوران اِنہیں بہ آسانی پکڑا بھی جا سکتا ہے، لیکن اِن کے پاس موجود آتشیں ہتھیاروں کا خوف اتنا شدید ہوتا ہے کہ موقع ملنے کے باوجود بھی کوئی یہ رِسک لینے پر آمادہ نہیں ہوتا اورجرائم پیشہ افراد نہتّےشہریوں کی اِس کم زوری سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سرِعام بےخوف و خطر ہو کر بڑی آسانی سے شہریوں کو لُوٹ کرفرار ہوجاتے ہیں۔ 

بعض اوقات تو ان ڈاکوؤں کے پاس اسلحہ بھی نقلی ہوتا ہے یا پھر وہ غیر مسلّح ہوتے ہیں، لیکن وہ خوف کی ’’سازگار‘‘ فضا سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے محض ڈرا دھمکا کر ہی کچھ نہ کچھ چھین یا لُوٹ کر نو دو گیارہ ہوجاتے ہیں۔ گرچہ اس قسم کے جرائم پیشہ افراد Low Category میں آتے ہیں، لیکن یہ محض اس وجہ سے دھڑلّے سے لُوٹ مار کی وارداتیں کرتے ہیں کہ اِن واقعات کے سدِباب کےلیے ابھی تک کوئی مؤثر حکمتِ عملی نہیں بنائی گئی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان کی کارکردگی صرف پریس کانفرنسز تک محدود ہے، جن میں جرائم کے خاتمے کے لیے اقدامات کے بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں۔

اب ہم دن دیہاڑے لُوٹ مار کی وارداتوں کی چند وجوہ اور اسباب پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ ان افسوس ناک واقعات کا پہلا سبب بےجا نمود و نمائش ہے۔ مثال کےطور پر اگر ہمیں کسی شادی کی تقریب میں شرکت کرنی ہو، تو خُود کو ہر اعتبار سے دوسروں کے مقابلے میں بہتر ثابت کرنے کے لیے بالخصوص خواتین اپنے پہناوے اور بناؤ سنگھار کا حد سے زیادہ اہتمام کرتی ہیں، جس کے معاشرے کے محروم طبقات پر منفی نفسیاتی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ 

اِسی طرح بیش تر تقریبات میں ڈائننگ ٹیبل پر انواع و اقسام کے کھانے سجے ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو اتنی ورائٹی ہوتی ہے کہ انسان اِسی میں اُلجھ کر رہ جاتا ہے کہ کیا کھائے اور کیا نہیں۔ جب کہ زیادہ تر لوگ تو اِن تقریبات کا اصل مقصد فراموش کرکے محض’’فُوڈ فیسٹیول‘‘ ہی سمجھتے ہوئے اِن کھانوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ 

آغازِ طعام پر ایسا لگتا ہے کہ شاید یہ اُن کی زندگی کا آخری کھانا ہے، جب کہ اختتامِ طعام پر رزق کی بربادی و بےحُرمتی کا جو نظارہ ہوتا ہے، اُس کی نظیر شاید ہی کہیں ملے۔ اِس کے برعکس ان نعمتوں سے محروم افراد کے گھروں میں کئی روز سے فاقے ہو رہے ہوتے ہیں اور شِیر خوار بچّوں کے لیے دُودھ کا حصول تک دشوار ہوتا ہے۔

نتیجتاً، ان محروم، کم وسیلہ طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد میں مال و دولت کے حصول کے لیے ناجائز ذرائع استعمال کرنے کے خیالات فروغ پانے لگتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ نمود و نمائش کا رجحان صرف شہروں میں عام نہیں، بلکہ قصبات اور دیہات میں بھی اِن دنوں یہی رِیت ہے۔ جیسا کہ آج کل دیگر خرافات کے ساتھ ڈالرز اور ریال لُٹانے کی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں۔ پتا نہیں، اس موقعے پر کوئی یہ کیوں نہیں سوچتا کہ مال ودولت کی اِس بے جا نمائش کے معاشرے کے محروم افراد پر کیا اثرات مرتّب ہوں گے۔

دوسری جانب لُوٹ مار میں ملوّث افراد کی حوصلہ شکنی اور اِن واقعات کے تدارک کے لیے ایک مؤثر حکمتِ عملی بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اس ضمن میں تعلیمی اداروں، شاپنگ سینٹرز، بینکس اور عوامی مقامات پر ایمان دار، فرض شناس سیکیوریٹی اہل کار متعیّن کیے جائیں کہ جو سادہ کپڑوں میں ملبوس ہوں۔ زیادہ بہتر تو یہ ہوگا کہ ڈکیتی اور چھینا جھپٹی کے واقعات کے روک تھام کے لیے رینجرز اہل کاروں پر مشتمل ایک خصوصی سیل قائم کیا جائے۔ 

واضح رہے کہ ماضی کی بہترین کارکردگی کے سبب عوام پولیس کی نسبت رینجرز پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔ اِسی طرح اگر کوئی لٹیرا کیمرے کی زد میں یا رنگے ہاتھوں پکڑ میں آجائے، تو اُسے فوری طور پر ماورائے ضمانت مجرم قرار دے کر قرار واقعی سزا دلوائی جائے۔ لُوٹ مار کے زمرے میں کم از کم 10 سال قید اور دورانِ واردات کسی کی جان لینےکی صُورت میں،فوری طور پر پھانسی کی سزا دی جائے اور ایسے کیسز کو التوا کا شکار نہ ہونےدیا جائے۔

اِسی طرح عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اسراف سے اجتناب برتیں اور خصوصاً گھر سے باہر نکلتے ہوئے حتی الامکان احتیاط کریں۔ بڑی رقم، اے ٹی ایم کارڈ سمیت دیگر ضروری کاغذات بھی صرف ضرورتاً باہر لےکر جائیں یااُنہیں کسی خفیہ پاکٹ میں رکھیں۔

نیز، صُبح کے وقت رات کی بچی ہوئی روٹی یا پھر پرندوں کو حسبِ توفیق دانہ دینا اپنا معمول بنا لیں اور مستحقین کی حسبِ توفیق مدد اپنا شِعار۔ باوضو ہوکر، اللہ کےتصوّر کو ذہن میں رکھ کے، پاکیزہ خیالات کے ساتھ گھر سے نکلیں اور تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے بعد باقی معاملات مکمل اعتماد کے ساتھ اللہ پر چھوڑ دیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے، آمین!

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار برائے صفحہ’’ متفرق‘‘

فلسطین میں جنگ بندی کا اعلان (آسیہ خانم) شعبانِ معظّم، بڑی بہن، کشمیر، نظریاتی ریاست، حجاب میرا فخر، فروری کی خرافات (صبا احمد) آساں نہیں مسلماں ہونا، کشمیر (زہرا یاسمین، کراچی) امجد اسلام امجد سے ملاقات (مبشرہ خالد) مقبول بٹ شہید (آصف اشرف) سلطان عبدالحمید (خضر حیات) رپورٹ (پروفیسر حکیم سیّد عمران فیاض) پنجابی زبان (ڈاکٹر مختار ظفر، ملتان) آندھر نگر کی مقدس ہستیاں اور میڈیا (عبدالغفار بگٹی، ڈیرہ بگٹی) لہو رنگ چنار (ثمینہ نعمان) آزادی مارچ اور ہماری خواتین (شہلا خرّم) کشتیاں ڈوبنے کے واقعات (مسز صبوحی وحید، گلشن اقبال، کراچی) سیوریج لائن کی خرابی (صغیر علی صدیقی، گلزار ہجری، کراچی) خونی ڈمپرز (سہیل رضا، کراچی) حقیقی ملکیت، حیا کا چھوٹا سا عمل (بنتِ سعید،لا ہور۔ تحریریں بیک وقت کئی اخبارات و جرائد کو بھیجنے کے باعث ری جیکٹ کی گئی)