پچھلے تیس چالیس سال میں معاشرہ کس تیز رفتاری سے بدلا ہے کہ سب کچھ بدل کے رہ گیا ہے، ایک زمانہ تھا استاد، شاگردوں کا احساس کرتے تھے، اب زمانہ ہے کہ استادوں کو شاگردوں کا کوئی احساس نہیں اور نہ ہی شاگردوں کو کسی استاد کا احساس ہے۔ اسی معاشرے میں ایک زمانہ تھا، ڈاکٹروں میں مسیحائی کے سارے روپ نظر آتے تھے، اب ڈاکٹرز مریضوں کا احساس تک نہیں کرتے۔ سماج کے ان دو شعبوں میں دولت کی دیوی کا راج قائم ہو چکا ہے، شاگرد اور مریض سے مال کی بنیاد پر سلوک کیا جاتا ہے، اسی طرح استاد اور ڈاکٹر بھی دولت کی دیوی کے مرید بن چکے ہیں۔ ایک دور تھا لوگ کہیں چھپ چھپا کر رشوت لیا کرتے تھے، اس وقت معاشرے میں حرام خوروں کی تعداد بہت کم تھی، اب سر عام رشوت طلب کی جاتی ہے، گویا دیانتداری جرم بن کررہ گئی ہے۔ ایک زمانہ تھا، حرام خور کم از کم گلی محلے کا اتنا احساس ضرور کرتے تھے کہ محلے میں کسی کو پتہ نہ چلے کہ وہ رشوت خور ہیں مگر اب زمانہ عجیب آ گیا ہے کہ لوگ ڈنکے کی چوٹ پر بتاتے ہیں کہ ہماری ہر مہینے اتنی کمائی ہے، حرام خوری کی شروعات کے زمانے میں عام لوگ یہ سمجھتے تھے کہ پولیس اور واپڈا میں رشوت خوروں کی تعداد زیادہ ہے مگر پھر وقت نے ثابت کیا کہ ایسا نہیں، ہر طرف رشوت خوروں کا بازار لگا ہوا ہے، لوگ دولت کے حصول میں نہ سماجی روایات کی پرواکرتے ہیں اور نہ ہی مذہبی اسباق کی، جیسے جیسے معلومات کے دروازے کھلے، لوگوں کو پتہ چلا کہ کسٹم والے بھی ایسے ہی ہیں، آمد و رفت بڑھی تو پتہ چلا کہ ہوائی اڈوں پر بھی رشوت کا دھندہ چلتا ہے، خود ہمارے صحافتی شعبے میں بھی لوگوں نے دولت کے پیچھے بھاگنا شروع کیا تو سچائی کے منظر دھندلے ہو کر رہ گئے۔ پورے نظام کے ہر محکمے میں دولت اور طاقت کی حکمرانی ہے، دیانتداری کو حماقت سمجھا جاتا ہے اور جس کی کوئی سفارش نہ ہو اسے بیوقوف تصور کیا جاتا ہے۔
جن محکموں سے ٹھیکیدار وابستہ ہیں، وہاں کرپشن کی الگ داستانیں ہیں، کچھ ٹھیکیداروں سے معلوم ہوا کہ ٹھیکے میں پانچ فیصد تو محکمے کا ہوتا ہے، دس فیصد فلاں کا ہوتا ہے اور دو فیصد بل پاس کرواتے وقت دینا مجبوری بن جاتا ہے۔ میں نے ایک ٹھیکیدار سے عرض کیا کہ آپ جس محکمے سے ٹھیکہ لینے کی بات کر رہے ہیں اور یہ بھی فرما رہے ہیں کہ پانچ فیصد تو محکمے کا ہے تو کیا محکمے کے لوگ تنخواہ نہیں لیتے؟ ٹھیکیدار بولا، " جی ہاں! یہ سرکاری افسران حکومت پاکستان سے تنخواہ بھی لیتے ہیں، گاڑی، گھر اور دیگر سہولیات بھی لیتے ہیں اور پانچ فیصد ہم سے بھی لیتے ہیں، یہ الگ بات ہے انہوں نے رشوت کا نام کمیشن رکھا ہوا ہے"۔ میں نے اس سے پوچھا، جب وہ سرکار سے تنخواہ لیتے ہیں تو آپ انہیں کس مد میں پیسے دیتے ہیں؟ ٹھیکیدار نے کہا " کیونکہ وہ ہمیں ٹھیکہ دیتے ہیں، اس لئے وہ ہم سے پانچ فیصد لیتے ہیں اور اگر ہم انہیں پانچ فیصد نہ دیں تو پھر ٹھیکہ ہمیں نہیں ملتا، کسی اور کو مل جاتا ہے"۔ اب میں نے اسے تیسری بار پوچھا: اس کا مطلب ہے ٹھیکہ لینے کیلئے آپ رشوت دیتے ہیں، شریک جرم تو آپ بھی ہو گئے۔ ٹھیکیدار سٹ پٹا کر بولا تو کیا ہم اپنے بچے بھوکے مار دیں؟ ہم کیا کریں؟ پورے ملک میں یہی نظام چل رہا ہے، ہر محکمے میں چین بنی ہوئی ہے اور اس چین کو صرف دولت کی دیوی سلامت رکھتی ہے، جہاں دولت نے قدم روکے، وہیں چین ٹوٹ گئی۔ جب میں سارے محکموں پر غور کرتا ہوں تو پھر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ پورا معاشرہ بگاڑ کا حصے دار بن چکا ہے، لوگوں کو نہ ملک کا احساس ہے نہ آخرت کی فکر ہے، بس وہ ہر قیمت پر دولت میں کھیلنا چاہتے ہیں۔ ایک روز میرے محلے کا پھل فروش کہنے لگا، " سر! میری علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر سے تو جان چھڑوا دیں"۔ میں نے کہا مسئلہ کیا ہے؟ اس نے کہا" اکثر شام کے وقت اسسٹنٹ کمشنر کی گاڑی میری دکان کے سامنے آ کر رکتی ہے، وہ خود تو گاڑی میں بیٹھے رہتے ہیں، ان کے دو کارندے آتے ہیں، وہ آ کے حکم صادر کرتے ہیں، دس کلو سیب، چھ کلو انگور، دو کریٹ مسمی مالٹے اور اسی طرح دیگر پھل، میں تولتا ہوں اور وہ لے کر چلے جاتے ہیں، ان کا یہ عمل میری پانچ چھ روز کی کمائی کھا جاتا ہے"۔ میں نے اس سے کہا، تم انکار کر دو۔ وہ نمناک ہوتے ہوئے بولا، " یہ بڑے ظالم لوگ ہیں، یہ میری دکان بند کر دیتے ہیں"۔ یہ سن کر دل اداس ہوا کہ یہاں تو منظر ہی بدل چکا ہے، میں تو اس دور کا دیہاتی آدمی ہوں، جب دیہات میں کسی کی شادی ہوتی تھی تو سارے گاؤں سے چار پائیاں اور بستر جمع ہو جاتے تھے، کھانے پینے کی چیزوں کیساتھ پورا گاؤں شادی میں شریک ہوتا تھا، لوگ ایک دوسرے کا احساس کرتے تھے اور اگر کسی لڑکی کی شادی ہوتی تو رخصتی کے وقت جب اسے ڈولی میں بٹھایا جاتا تو لڑکی میکے گھر سے جدائی کے اظہار میں روتی تھی، یہ منظر سب کو نمناک کر دیتا تھا، دل چیر کے رکھ دیتا تھا مگر اب میں شہروں میں دیکھتا ہوں کہ رخصتی کے وقت کسی کو کوئی احساس ہی نہیں ہوتا، لوگ رشتے داریاں بھی دولت اور طاقت کی بنیاد پر کرتے ہیں، اطہر قسیم صدیقی کا ایک مصرعہ رہ رہ کر یاد آ رہا ہے کہ
احساس کے سفر میں احساس مر گیا