• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ ایسا ہی ایک ماہ ِرمضان تھا جب عرفان مسیح چپ چاپ خدا کو پیارا ہو گیا۔ اسے مرنا ہی تھا۔ وہ اس لیے نہیں مرا کہ عمرکوٹ کی اس سیوریج لائن کو کھولنے کی کوشش میں اس پر زہریلی گیسیں اثر کر گئیں۔ وہ اس لیےنہیں مرا کہ اسے بروقت طبی امداد نہ مل سکی۔ وہ اس لیے بھی نہیں مرا کہ جب آخری ہچکیاں لے رہا تھا تو جو سلنڈر اس کے منہ کو لگایا گیا، آکسیجن سے خالی تھا۔

ہمارے ہاں قریہ قریہ پھیلے ان جمعداروں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہوتا۔ ان کا کوئی چہرہ ہوتا ہے نہ کوئی آواز۔ کون ہے جو ان کی موجودگی کا ادراک رکھتا ہو؟ کیا کبھی کسی نے گھڑی بھر کو سوچا ہے جمعدار ہمارے لیے کس قدر مشکل کام کرتے ہیں؟ کون ہے جو فضلے سے بھری زیر زمین سیوریج لائنیں رواں رکھتا ہے؟ کوئی رکاوٹ آ جاتی ہے تو کون ہے جو گٹروں میں اتر کر اسے دور کرتا ہے؟ جن مقامات پر ہمیں نظر ڈالتے بھی گھِن آتی ہے ان میں اتر کر ہی تو شروع ہوتا ہے ان جمعداروں کا کام!

اور اگر وہ اپنا کام نہ کریں توکیا نتیجہ نکلے گا؟ گٹر ابل پڑیں گے، تعفن پھیل جائے گا، بیماریاں پھوٹ پڑیں گی۔

اتنا سب کرنے کے باوجود، بجائے یہ کہ ان کے ہم جنس ان کے شکر گزار ہوں یا کم ازکم ان سے ہمدردی رکھیں، لوگ ان سے گھن کھاتے ہیں۔کوئی ان سے بات کرنا تو درکنار، ان کی بابت سوچتا بھی نہیں۔ دورمت جائیے، اپنے دامن میں جھانک کر دیکھیں آپ خود کس قدر ان کی موجودگی اور ان کو درپیش مشکلات سے آگاہ ہیں؟

عرفان سوچنے والا ذہن رکھتا تھا۔ اس نے جب پہلی دفعہ ”انسانی حقوق“ کے الفاظ سنے تو سوچا کرتا تھا کہ کیا یہ حقوق ہمارے لئے بھی ہیں۔ وہ منتظر تھا کہ کبھی کوئی سیاستدان، کوئی غیرسرکاری تنظیم یا کوئی میڈیا والا ان کیلئے بات کرےگا۔ انتظار طویل ہو گیا تو اسے لگا جیسے انہیں کوئی انسان ہی نہ سمجھتا !

ترقی یافتہ دنیا توجان چکی کہ فضلے سے بھری سیوریج لائنوں میں اتر کر انہیں صاف کرنا انسان کی تذلیل اور اس کی معاشی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کے مترادف ہے۔ اب جہاں تک ممکن ہو وہ یہ کام مشینوں سے لیتے ہیں۔ اور اگر کبھی کسی کو ان لائنوں میں اتارے بغیر چارہ نہ ہو تو اسے ایسا لباس، جوتے اورماسک پہنائے جاتے ہیں جو اچھی طرح اسے ڈھانپ لیں اور زہریلی گیسوں اور تعفن سے محفوظ رکھ سکیں۔ ان لوگوں کی باقاعدہ ویکسی نیشن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

کسی بیماری یا حادثے کی صورت میں بیمے کی رقم دلوائی جاتی ہے۔ تنخواہ کام کی سختی سے میل کھاتی ہے اور ایک سینیٹری ورکربھی معقول زندگی گزار سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ معاشرہ ان سے گھن نہیں کھاتا۔ ایسے تمام ملک سمجھتے ہیں کہ سینی ٹیشن پرخرچ کیا ہوا ایک روپیہ بھی ضائع نہیں جاتا بلکہ جس قدر ان معاملات میں خرچ کیا جاتا ہے، اسی قدر قوم صحتمند رہتی ہے۔

عرفان کو تو یہ سب باتیں خواب ہی لگتی تھیں۔ اپنے ہاں توعالم یہ ہےکہ تنگدستی اور بیماریاں تو ایک طرف، اس غلاظت میں رہ رہ کر، اور لوگوں کا نفرت آمیز رویہ دیکھ دیکھ کر، یہ جمعدار تو نفسیاتی مریض بھی بن جاتے ہیں۔ دوسروں کے مقابل ایک عجیب طرح کے احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کسی پبلک مقام پر چلے جائیں تو خود بھی کرسی یا بنچ پر بیٹھتے جھجکتے ہیں اور فرش پر ہی جا ٹکتے ہیں۔

جمعدار آئے روز حادثوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اخبار بھی ایسی خبروں کو شائع کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ اُس گٹرلائن میں تین سال پہلے بھی حادثے کا شکار ہو کر دو جمعدار موت کے منہ میں چلے گئے تھے لیکن اس سے بھی کچھ نہیں بدلا تھا۔وہ گٹر لائن رواں رہنے کے لئے پھر کسی جان کا خراج مانگ رہی تھی اور اب شاید باری تھی عرفان کی!

لائن نے کیا کھلنا تھا، زہریلی گیسوں کے سبب عرفان بےہوش ہو گیا۔ وہ مضبوط قوت ارادی کا حامل شخص تھا۔ جب سانس اکھڑنے لگتی، وہ اپنی ہمت مجتمع کرتا کہ اسے ابھی اور جینا ہے۔ ایسا سوچتے ہوئےوہ اپنی ماں کو بھی چشم تصور میں لے آتا کہ وہ اس کیلئےبھی زندہ رہنا چاہتا تھا۔ عرفان کی آنکھیں بند اوردماغ ماؤف تھا لیکن وہ اب بھی اپنے آس پاس کی آوازیں سن سکتا تھا۔ ہسپتال پہنچ کر وہ پُرامید ہو گیا کہ اب محفوظ ہاتھوں میں تھا۔ اسی اثنا میں اسے ایک شناسا آوازسنائی دی جو شاید کسی ڈاکٹر سے التجا کر رہی تھی اسے بچانےکیلئے۔ اور پھر اس نے جو سنا، لمحے بھر کو تو اسے اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آیا۔ ڈاکٹر اسے غلاظت میں لتھڑا دیکھ کر اسے ہاتھ لگانے سے انکاری تھا۔ ڈاکٹر کو یہ بھی ڈر تھا کہ غلاظت اس کا روزہ خراب کر دے گی۔ وہ شاید اپنے نبیﷺ کا یہ فرمان بھول گیا تھا کہ’’ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں روزے میں سوائے بھوک و پیاس کے، کچھ نہیں ملتا!‘‘

یہی وہ گھڑی تھی جب عرفان کی ہمت جواب دے گئی۔ اس نے موت سے مزید لڑنے کی کوشش ترک کر دی۔ اب تو چشم تصور میں کھڑی اس کی ماں بھی اسے نہ روک سکی۔ وہ اس تکلیف کو تو سہہ گیا جو دم گھٹنے سے ہوئی تھی اور کسی نہ کسی طور زندگی کی ڈور تھامے، ہسپتال پہنچ گیا تھا لیکن اس معاشرے میں اپنے اصل مقام کا ادراک ہو جانے کے بعد، عرفان اس دکھ کی تاب نہ لا کرمرگیا کہ کسی کے ہاتھوں کا صاف رہنا بھی اس جیسوں کی زندگی سے زیادہ ضروری تھا۔ ایسے جینے سے مر جانا ہی بہتر!

تازہ ترین