• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی جانب سے پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ میں ڈھالنے کے عزم نے سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث شروع کردی ہے،آرمی چیف کا حالیہ اہم بیان پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقدہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے دوران منظرعام پر آیا جس میں وزیراعظم شہباز شریف، صوبائی وزراء اعلیٰ، پارلیمانی کمیٹی کے ارکان سمیت مختلف وفاقی وزیرشریک ہوئے، اس موقع پر اعلیٰ عسکری حکام کی جانب سے ملکی دفاعی صورتحال اور حکمت عملی پر بریفنگ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا،اجلاس کے اختتام پر جاری اعلامیہ میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے ناسور کو کچلنے کیلئے آہنی طاقت کے استعمال پر زور دیا گیا۔قبل ازیں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی اجلاس کے دوران قومی ایکشن پلان ٹو بنانے کا مطالبہ کیا کہ دہشت گرد، عالمی طاقتیں اور پاکستان کے دشمن ہماری نااتفاقی کا فائدہ اٹھارہے ہیں۔بلاشبہ جعفر ایکسپریس ٹرین کے اغواء کے دوران بے گناہ مسافروں کی المناک شہادت نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے،یہی وجہ تھی کہ دنیا کی نظریں پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی جانب مرکوز ہوگئی تھیں جہاں پاکستان کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کیلئے پُر عزم نظر آئی۔میں سمجھتا ہوں کہ سوشل میڈیا پر سرگرم عناصر جو ہارڈاسٹیٹ سے منسوب بیان کو ہدف ِ تنقید بنارہے ہیں، وہ یا تو سوفٹ اسٹیٹ اور ہارڈ اسٹیٹ کی اصطلاح سے واقف نہیں یا پھر جان بوجھ کر قوم کو کنفیوژ کرنا چاہتے ہیں۔ سوفٹ اسٹیٹ کی اصطلاح ساٹھ کی دہائی میں سویڈش ریسرچر گونار مائیڈرل نے متعارف کرائی تھی جس نے اپنی تصنیف میں مختلف ایشائی ممالک بالخصوص انڈیا کو درپیش مسائل کا ذمہ دارنرم حکومتی پالیسیوں کو ٹھہرایا، مصنف نے اس امر پر زور دیا تھا کہ حکومت کی جانب سے ڈھیلی ڈھالی پالیسیاں اور قانون کے نفاذ میں ناکامی ریاستی اداروں کو کمزور کرنے کا باعث بنتی ہے جسکی بناء پرکرپشن، غربت، بیڈ گورننس، انارکی جیسے سماجی مسائل منہ زور عفریت کا روپ دھار کر ریاست کو عدم استحکام سے دوچار کردیتے ہیں۔ ایک سوفٹ ریاست اپنی پالیسیوں کو موثر انداز سے نافذ کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتی ہے جسکے نتیجے میں سماج دشمن عناصر سر اٹھاتے ہیں،کرپشن اور سماجی ناانصافی کے باعث عوام بے چینی کا شکار ہوتے ہیں جبکہ پڑوسی ممالک اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے ناراض گروہوں کو اپنا آلہ کار بناتے ہیں، لوگوں کا اعتماد حکومت پر سے اُٹھ جاتا ہے اور وہ یہ محسوس کر تے ہیں کہ حکومت انکی جان و مال کی حفاظت میں ناکام ہے، بدعنوانی، اندرونی شورش، معاشی پسماندگی اور غیریقینی صورتحال سرمایہ کاروں، عالمی اداروں،بزنس کمیونٹی اور تعلیم یافتہ نئی نسل کو بدظن کرکے دوسرے ممالک کی راہ اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے، ایک نرم ریاست کا وجود جمہوری اقدار کو کمزور کرکے قانون کی حکمرانی، آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کیلئے بھی نت نئے خطرات کا باعث بنتا ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد جرمنی کی صورت میں سوفٹ اسٹیٹ نے کرپشن، جرائم اور شدت پسندی کیلئے سازگار ماحول فراہم کیا جس نے نازیوں کے عروج کیلئے راہ ہموار کی، اسی طرح ماضی میں اٹلی، فرانس، میکسیکو، ونیزویلا، نائیجیریا سمیت مختلف ممالک کے عدم استحکام کا ذمہ دار سوفٹ اسٹیٹ کو قرار دیاجاتا ہے، ہندوستان میں انگریز سامراج کا عروج بھی مختلف راجوں، مہاراجوں اور نوابوں کی چھوٹی چھوٹی سوفٹ اسٹیٹس کے باعث ہی ممکن ہوا۔ دوسری طرف انٹرنیشنل پالیٹکس میں ہارڈ ریاست کا تصور ریاستی قوانین کے سختی سے نفاذ سے مشروط ہے،ہمارے سامنے چین، جنوبی کوریا، سنگاپور اور متحدہ عرب امارات کی مثالیں موجود ہیں جو کسی زمانے میں ڈھیلی ڈھالی نرم ریاستیں ہوا کرتی تھیں لیکن جب انہوں نے خود کو ہارڈ اسٹیٹ میں ڈھالا تو وہ عالمی برادری کیلئے رول ماڈل ممالک قرار پائیں۔ مذکورہ ممالک میں لاکھ نظریاتی اختلافات پائے جائیں لیکن بطور ہارڈ ریاست یہ قدرِ مشترک ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ انکے ملک میں قانون کی بالادستی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ بن سکے،ملک کے چپے چپے کا موثر دفاع کرتے ہوئے ریاست کی رٹ برقرار رکھی جائے۔سماجی ناانصافی، کرپشن اور بدعنوانی میں ملوث سماج دشمن عناصر کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا جائے، بلاتفریق احتساب کو پروان چڑھایا جائیاور شدت پسندوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا جائے۔حکومتی پالیسیوں کا موثر نفاذ عوام، سرمایہ داروں اور تمام اسٹیک ہولڈرز کیلئے احساسِ تحفظ میں اضافہ کرتا ہے جسکی بناء پر تیزی سے ترقی و خوشحالی کی منزلیں عبور ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے پیارے ملک میں جب بھی دہشت گردی کاکوئی واقعہ ہوتا ہے یا معصوم لوگوں کو شدت پسندی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو ذمہ داران کو آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے عزم کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر ہمارے اپنے درمیان کچھ لوگ شدت پسندوں کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، کچھ ناعاقبت اندیش عناصرکی طرف سے سخت رویہ اختیار کرنے پر مخالفت شروع کردی جاتی ہے، شدت پسندوں سے مذاکرات کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں،سوشل میڈیا پر عوام کو کنفیوژ کرنے کیلئے نت نئی سازشی تھیوریاں متعارف کی جاتی ہیں اور پھر ایک بڑے سانحہ کے بعد خاموشی چھا جاتی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں اتفاقِ رائے سے ایک نئے قومی ایکشن پلان ٹو کی جانب بڑھنا چاہیے،بلاول بھٹو زرداری صاحب کا اصولی موقف قابل تعریف ہے کہ حالت جنگ میں سیاست سے بالاتر ہوکرملک کو ترجیح دینا ہر پاکستانی کی حب الوطنی کا تقاضا ہے۔ آرمی چیف نے واضح الفاظ میں مستقبل کا خاکہ پیش کردیا ہے کہ پاکستان کو امن کا گہوارا بنانے کیلئے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ناگزیر ہے کیونکہ پاکستان کی سلامتی سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں بسنے والے تمام لوگ اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھیں،افواج پاکستان کی قربانیاں کسی صورت رائیگاں نہیں جانی چاہیے،میری نظر میں پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ میں ڈھالنے کا عزم نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ تمام محب وطن پاکستانیوں کے دل کی آواز ہے۔

تازہ ترین