• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الجبرا کا کوئی مشکل سوال ہے ، نہ اس مسئلے کو سمجھنے کے لئے سوشل سائنسز میں پی ایچ ڈی کرنے کی ضرورت ہے ۔ کوئی بھی کھلے دل و دماغ سے غوروفکر کر کے اس حقیقت کا سامنا کر سکتا ہے کہ دنیا کے جن ملکوں میں سوچ اور علم و آگہی کے دریچے بند ہیں ، صحت و تعلیم کی سہولتیں ناپید ہیں ، بنیادی حقوق خواب ہیں ، تفریح کے مواقع عنقا ہیں ، وسائل کی غیر مصنفانہ تقسیم اور طبقاتی خلیج عروج پر ہے ، بے روزگاری ، اقربا پرور ی اور بد عنوانی تھوک کے حساب سے دستیاب ہے اور آبادی بے ہنگم طریقے سے بڑھتی ہے، وہاں فرد کو اپنی اور دوسروں کی زندگی سے کم ہی پیار ہوتا ہے ۔ انتہا پسندی ، عسکریت پسندی ،لاقانونیت اور قتل و غارت کے لئے بھی ایسی سر زمینیں زرخیز ہوتی ہیں ۔ اگر ایسے کسی ملک میں ڈنڈا طاقتور ہے تو یہ بلائیں دب جاتی ہیں مگر مٹ نہیں سکتیں۔ اس کے برعکس جن معموروں میں سوچ کی آزادی ہے ، ہر کسی کے لئے علم و عمل اور تحقیق کے در وا ہیں، بنیادی حقوق ، روزگار اور تفریح کے مواقع یکساں طور پر ارزاں ہیں اور آبادی ریاستی منصوبہ بندی کے تحت بڑھتی ہے ،وہاں شہریوں کو اپنی زندگی سے بھی محبت ہوتی ہے اور دوسرے انسانوں سے بھی ۔ وہاں جہالت اور انتہا پسندی کوئی مقام حاصل کر سکتی ہے، نہ لاقانونیت اور قتال و جدال پنپ سکتے ہیں ۔ یہ ایک لمبی بحث ہے جسے کسی اور موقع کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔
فی الوقت غیر انسانی رویوں کے عوامل پر بحث کی غرض سے ایک انتہائی محدود دائرے یعنی فاٹا بلکہ یوں کہیں کہ شمالی وزیرستان کے متعلق یہ عرض کرنا ہے کہ بنوں سے آگے افغان بارڈر تک کوئی قابل ذکر تعلیمی ادارہ، سڑک ، اسپتال ،پی ٹی سی ایل ایکسچینج، موبائل ٹاور، پٹرول پمپ ، ٹی وی یا اخبارات دستیاب نہیں اور بجلی بھی چند علاقوں تک محدود ہے ۔ پولیٹکل ایجنٹوں کے ذریعے مقامی ملکوں کو فنڈز دے کر اسکول اور ہیلتھ سینٹرز بنوائے گئے مگر اسکولوں میں مَلکوں کے حجرے قائم ہیں اور ہیلتھ سینٹرز میں ڈاکٹر نہیں ۔ پاکستان کا قانون وہاں لاگو نہیں ہوتا اور قبائلی روایات کے تحت نافذ قوانین میں منطق کا عمل دخل کم ہی ہے ۔ طبقاتی خلیج وسیع ہے اور عام آدمی کے لئے روزگار کے مواقع بھی نہیں۔ ایسے حالات میں وہاں لاقانونیت کا پنپنا اور دنیا بھر کے عسکریت پسندوں کا اس علاقے کو اپنی آماجگاہ بنا لینا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ۔
جنوبی وزیرستان میں آپریشن مکمل کرنے کے بعد شمالی وزیرستان میں موجودہ آپریشن ضرب عضب پاک فوج کے لئے ایک بڑا چیلنج تھا ۔ تاہم آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو کریڈٹ جاتا ہے کہ ان کی قیادت میں اس آپریشن اور بعد کے حالات سے متعلق ٹھوس منصوبہ بندی کی گئی ۔شمالی وزیرستان کا ہیڈ کوارٹر میرانشاہ منشیات اور گاڑیوں کی اسمگلنگ اور اغوا برائے تاوان کا گڑھ تھا ۔ ان جرائم کے تمام اڈوں پر فوج نے بلڈوزر پھیر دیا ہے اور آج وہاں ایسی غیر قانونی سرگرمیاں بند ہیں ۔ اب یہ پاک فوج کا ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہے ۔ آپریشن شروع ہوا تو متاثرہ علاقوں میں میرانشا ہ ، میر علی ، کھجوری قلعہ ، رزمک، دتہ خیل، بویا کے علاوہ چھوٹے چھوٹے کئی گائوں شامل تھے ۔ عرب، مصری ، یمنی، ازبک، چیچن، قطری، افغانی اور پاکستانی عسکریت پسندوں نے مختلف ویران مقامات پر اپنے قلعے بنائے ہوئے تھے ۔ ان متاثرہ آبادیوں میں ان کے سہولت کار موجود تھے ، جو انہیں بوقت ضرورت ٹھکانہ فراہم کرنے کے علاوہ بنوں اور میرانشاہ سے سازوسامان بھی لا کر دیتے تھے ۔ یہ سہولت کار جو با اثر مَلک تھے ،عسکریت پسندوں کے آنے پر مقامی آبادی کے مختلف گھروں میں انہیں زبردستی کا مہمان بنا دیتے اور ایسے گھروں کے افراد مجبوراً ان کی خدمت مدارت کرتے تھے ۔ فوج کے اس آپریشن کے بعد بہت سے عسکریت پسند مارے جا چکے ہیں جبکہ باقی افغانستان فرار ہو گئے ہیں ۔ ان کے ٹھکانے تباہ کر دیئے گئے ہیں اور شمالی وزیرستان کا غالب حصہ کلیئر ہو چکا ہے ۔
آپریشن سے بے گھر ہونے والے سات لاکھ متاثرین کی آبادکاری کے لئے فوج اور فرنٹیئر کور نے موثر اقدامات کئے ہیں ۔ میرانشاہ کے نزدیک بکا خیل میں ان کا سب سے بڑا رجسٹریشن کیمپ ہے جبکہ دیگر جگہوں پر بھی چھوٹے کیمپ قائم ہیں ۔ ایک فیملی کو ایک بڑا اور دو چھوٹے ٹینٹ اور باتھ روم دیا جاتا ہے ۔بجلی کے جنریٹر اور پنکھے بھی موجود ہیں ۔ ان کیمپوں میں لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے الگ الگ تعلیمی ادارے ، ویلڈر ، موٹر مکینک ، درزی ، دائیوں کے کورس اور سلائی کڑھائی جیسے ہنر سکھانے کے ادارے ،مساجد اور خطیب موجود ہیں ۔ فوجی اسپتال بھی قائم ہیں جہاں ان لوگوں کو ہمہ وقت زنانہ و مردانہ ڈاکٹرمیسر ہیں ۔ نیز متاثرین کی نفسیاتی تربیت بھی کی جاتی ہے ۔ جو علاقے کلیئر ہو جاتے ہیں، وہاں ان متاثرین کی دوبارہ آباد کاری بھی کی جا رہی ہے تاہم اب وہاں زندگی پہلے سے مختلف ہے ، جوا سکولوں ،کالجوں ،ٹیکنیکل تعلیم کے اداروں ، کمیونٹی سینٹروں ، ڈسپنسریوں ، سولر بجلی ، فلٹریشن پلانٹس اور مارکیٹوں جیسی سہولتوں سے مزین ہیں ۔ ماضی میں ایسی آبادیوں میں جو نوجوان دن بھر فارغ رہ کر تاش کھیلتے تھے یا جن کا ذریعہ معاش پوست کی کاشت اور جنگلوں کی ناجائز کٹائی تھا ،اب وہ مارکیٹوں میں ویلڈنگ، الیکٹریشن،موٹر مکینک اور درزی جیسے پیشوں سے روزی کماتے نظر آتے ہیں ۔ خواتین بھی سلائی وغیرہ اور دائی جیسے ہنر سے کمانے کے قابل ہو رہی ہیں ۔ ان آبادیوںتک بلڈوزروں سے رستے بنائے جا رہے ہیں جبکہ بنوں سے میرانشاہ تک ایف ڈبلیو او نے سڑکیں تعمیر کر دی ہیں ۔ میرانشاہ میں ٹیلی فون ایکسچینج بھی لگ چکا ہے .جب ایک گائوں ان سہولتوں کے ساتھ آباد ہو جاتا ہے تو اسے سول انتظامیہ کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔تاہم فوج ان اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھتی ہے اور کسی خلاف ورزی کی صورت میں اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ سے جواب طلبی ہوتی ہے ۔ پاک افغان سرحد پر فوج اور ایف سی کی کئی چوکیاں اور قلعے تعمیر ہو چکے ہیں اور باقی قلعے زیر تعمیر ہیں تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان غیر قانونی آمدورفت کو روکا جا سکے ۔
پاک فوج اس دشوار گزار علاقے میں پوری جانفشانی اور جان ہتھیلی پر رکھ کر یہاں کی تقدیر بدل رہی ہے ۔ تاہم آپریشن مکمل ہونے کے بعد اس علاقے کا بندوبست سول انتظامیہ کو منتقل ہونا ہے ۔ اس سلسلے میں سابقہ تجربات حوصلہ افزا نہیں ۔ 2006ء کے آپریشن کے بعد شمالی وزيرستان ميں وفاقی حکومت کی انتظام چلانے میں ناکامی اور سوات آپریشن مکمل ہونے کے چھ سال بعد بھی وہاں فوج کا موجود ہونا اور سول انتظامیہ کا انتظام نہ سنبھال سکنا اس کا ثبوت ہے۔ وفاقی حکومت کو فاٹا میں آپریشن کے بعد وہاں سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر ان علاقوں کو قومی دھارے میں شامل کرنا ہے تو قبائلی علاقہ جات کا اسٹیٹس اور انیسویں صدی کے انگریز کے قوانین ختم کرنے ہوں گے ۔ نیز فاٹا کو کیٹیگری اے میں لا کر عوام کو حق رائے دہی دینا ہوگااور اسے خیبر پختونخواکا حصہ یا الگ صوبے کا درجہ دینا ہوگا۔ پاک فوج نے لازوال قربانیوں کے بعد وہاں دہشت گردی کا ناسور ختم کر کے صحت و تعلیم، روزگار اور دیگر سہولتوں کے جو چراغ روشن کئے ہیں ، حکومت انہیں روشن رکھ کر ہی اس علاقے کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔


.
تازہ ترین