• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دریائے سندھ دنیا کے اہم ترین دریاؤں میں سے ایک ہے، یہ دریا تبتی سطح مرتفع سے نکلتا ہے، ہمالیہ اور قراقرم کے ناہموار علاقوں سے بہتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے، اور تقریباً 3180کلو میٹر چلنے کے بعد سمندر میں گر جاتا ہے۔ اس سفر کے دوران پنجاب اور سندھ کے صوبوں میں زمینیں سیراب کرتا ہے۔ سندھ طاس آبپاشی کا نظام، جو دنیا کے چند بڑے نظاموں میں سے ایک ہے، اس کا انحصار اسی پر ہے۔ ماضی میں پنجاب اور سندھ کی زمینوں کو جہلم، چناب، ستلج اور راوی سیراب کرتے تھے مگر جنرل ایوب کے دور میں یہ دریا بھارت کے حوالے کر دئیے گئے۔ جس کے سبب پاکستان کے پاس صرف سندھو دریا کا پانی ہی رہ گیا۔ پاکستان نے چشمہ بیراج کے مقام سے ایک نہر نکال کر اسی کا پانی دریائے جہلم میں ڈالا کہ اس کی سانس چلتی رہے۔ وہاں سے ایک نہر ڈیرہ اسماعیل کی طرف بھی جاتی ہے جو خیبر پختون خوا کا کچھ حصہ سیراب کرتی ہے۔ پنجاب میں دریائے سندھ سے اور بھی نہریں نکالی گئی ہیں۔ کالا باغ کے مقام پر تھل کینال نکالی گئی جو سرائیکی علاقے کے ایک بڑے حصے کو سیراب کرتی ہے جسے تھل کہا جاتا ہے۔ تونسہ کے مقام پر بھی ایک نہر نکالی گئی ہے یہ جنوبی پنجاب کو سیراب کرتی ہے۔ صوبہ سندھ میں گدو بیراج سے گدو کینال، بہکائی کینال اور سکھر کینال نکالی گئی ہیں۔ برسوں سے نہر در نہر ایک سلسلہ پنجاب اور سندھ کو دریائے سندھ کے پانی سے سیراب کر رہا ہے۔ دریائے سندھ میں پانی کی کمی کا خوف سندھیوں کو ہمیشہ لاحق رہا ہے، اسی خوف کے تحت انہوں نے کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیا اگر کالا باغ ڈیم بن جاتا تو آج پاکستان میں نہ تو لوڈشیڈنگ ہوتی اور نہ ہی بجلی کے بل لوگوں کو بلبلانے پر مجبور کرتے۔ اس وقت دریائے سندھ سے چھ نئی نہریں نکالنے کا بل پاس کیا گیا ہے جس پر پیپلزپارٹی نے حکومت سے علیحدہ ہونے کی دھمکی دی ہے۔ میرے خیال میں تو یہ نہریں نکالنا بھی پاکستان میں آبپاشی کیلئے بہت بہتر کام ہے مگر اس سے کہیں بہتر اور فائدہ مند کالاباغ ڈیم ہے، یہ حکومت اگر صوبہ سندھ کو نہروں پر راضی کرسکتی ہے تو کالا باغ ڈیم بنانے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ کالاباغ میں صرف اسی پانی نے جمع ہونا تھا جو سیلاب میں ضائع ہوجاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ کالاباغ ڈیم کی طرح یہ نہروں کا پروجیکٹ بھی فائلوں میں پڑے پڑے ایک دن دم توڑ دے گا۔

کالا باغ ڈیم ایک ایسا منصوبہ ہے جو کئی دہائیوں سے پاکستان کے ترقیاتی مباحث میں مرکزِ نگاہ بنا ہوا ہے۔ اگرچہ اس پر شدید سیاسی اور بین الصوبائی اختلافات موجود ہیں، لیکن اس کے ممکنہ فوائد اتنے گہرے اور ہمہ جہت ہیں کہ نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔ پاکستان جیسے ملک کیلئے، جہاں توانائی کا بحران معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، کالا باغ ڈیم سستی اور وافر بجلی کا ایک قابلِ اعتماد ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس سے تقریباً 3600 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، جو ملک کی صنعتی، تجارتی، اور گھریلو ضروریات کو بڑی حد تک پورا کرسکتی ہے۔ پانی کی قلت سے متاثرہ زرعی شعبے کو بھی یہ ڈیم ایک نئی زندگی دے سکتا ہے۔ ہر سال لاکھوں ایکڑ فٹ پانی سمندر میں ضائع ہو جاتا ہے، جسے کالا باغ ڈیم محفوظ کر سکتا ہے۔ یہ پانی نہ صرف فصلوں کیلئے میسر ہو گا بلکہ بنجر زمینوں کو قابلِ کاشت بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔ پاکستان کی معیشت کا بڑا انحصار زراعت پر ہے، اور جب فصلیں بھرپور پانی سے سیراب ہوں گی تو کسان خوشحال ہوں گے اور ملک کی غذائی خودکفالت بڑھے گی۔ کالا باغ ڈیم ایک مضبوط دفاعی حصار بھی بن سکتا ہے ان سیلابوں کے خلاف جو ہر سال جنوبی پنجاب اور سندھ میں تباہی مچاتے ہیں۔ اگر یہ ڈیم ہوتا، تو شاید ماضی میں آنے والے کئی بڑے سیلابوں کا رخ موڑا جا سکتا۔ صرف انسانی جانیں ہی نہیں، لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں اور ہزاروں گھر بچائے جا سکتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ڈیم کی تعمیر سے روزگار کے نئے مواقع جنم لیں گے۔ مقامی لوگوں کو مزدوری، تکنیکی کاموں اور بعد از تعمیر دیکھ بھال کی صورت میں نوکریاں ملیں گی، جو پسماندہ علاقوں کی معاشی حالت بہتر کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ تھرمل بجلی کے مقابلے میں ہائیڈرو پاور بجلی نہ صرف سستی ہے بلکہ ماحول دوست بھی ہے۔ جب ملک کا انحصار درآمدی تیل اور گیس پر کم ہو گا، تو قیمتی زرِ مبادلہ بچے گا اور بجلی کی قیمت میں استحکام آ سکے گا۔ اگر ان تمام فوائد کو ایک تصویر میں سمویا جائے تو کالا باغ ڈیم ایک ایسا منصوبہ ہے جو پاکستان کو توانائی، زراعت، معیشت اور قدرتی آفات کے خلاف ایک مضبوط ستون فراہم کر سکتا ہے۔ البتہ، اس کی راہ میں سیاسی رکاوٹیں اور بین الصوبائی خدشات ایک ایسی حقیقت ہیں جنہیں اعتماد، شفافیت اور بین الصوبائی مشاورت سے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اگر ہم صرف مخالفت کی بنیاد پر اس جیسے منصوبے ترک کرتے رہے، تو شاید ہم ترقی کے اس خواب سے ہمیشہ دور رہیں گے جس کا راستہ ہم خود ہی روک رہے ہیں۔

ایک طویل عرصہ کے بعد میں نے کالا باغ ڈیم کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ اگر دریائے سندھ سے صرف صحرائی علاقوں کیلئے نہریں نکالی جا سکتی ہیں تو پھر کالا باغ ڈیم کیوں نہیں بنایا جا سکتا۔ میرے خیال میں صوبہ سندھ میں وفاقی حکومت مفت ٹیوب ویل لگانے کی عوام کو سہولت فراہم کرے تو شاید وہاں لوگ کالاباغ ڈیم اور نہریں نکالنے پر راضی ہو جائیں۔ ایک کام اور بھی ہو سکتا ہے۔ اگر دریائے سندھ کے پانی کو سمندر میں گرنے سے روک دیا جائے۔ یعنی اس کا رخ موڑ کر اسے واپس صوبہ سندھ کے اندر سے گزار کر دریائے سندھ میں ڈال دیا جائے تو شاید صوبہ سندھ کیلئے پانی کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے۔ بہر حال نہریں بھی نکلنی چاہئیں اور کالا باغ ڈیم بھی بننا چاہئے۔

تازہ ترین