احتشام انور مہار
مَیں اِک کالی کلوٹی سی لڑکی ہوں… اور آپ کیا جانیں، اِک ایسی لڑکی کا دُکھ! گود سے گور تک تو سُنا ہے ناں آپ نے؟ تو بس، یوں سمجھ لیجیے، اس معاشرے میں اُسے گود سے گور ہی تک اِک کرب سے گزرنا پڑتا ہے۔ مَیں بہن بھائیوں میں منجھلی تھی۔ ایک بڑا بھائی تھا، ایک چھوٹی بہن۔ اُن کا رنگ گورا نہیں تو بہت صاف ضرور تھا۔
دوسری طرف مَیں تھی، واجبی سی شکل و صُورت کے ساتھ، سانولی کہنا تو شاید غلط ہو گا، کالی تھی کالی! ابھی ہوش سنبھالا ہی تھا، تو لوگوں کو اپنے والدین سے مذاق کرتے دیکھا۔ ”یہ آپ کی بیٹی لگتی نہیں، کیا اسپتال میں بدل گئی تھی؟“ اور، وہ ہنس کر ٹال جاتے۔ بہن بھائیوں سے لڑائی ہوتی، تو وہ بھی چُھوٹتے ہی کہہ دیتے۔ ’’تم تو ہماری بہن ہی نہیں، اسپتال میں بدل گئی تھی۔‘‘ کچھ والدین نے اُنہیں روک دیا، کچھ وہ عُمر کے ساتھ سمجھ دار ہو گئے، تو انہوں نے کالی کہنا چھوڑ دیا۔ مگر… محلے یا اسکول میں، جب بچّوں کے ساتھ کھیلتی اور کبھی کسی بات پر اُن سے لڑائی ہو جاتی تو وہ کالی ہونے کا طعنہ ضرور دیتے۔
لڑائی تو ایک طرف، بچّے، بچیوں کا تو مذاق بھی میرے رنگ روپ ہی سے متعلق ہوتا۔ بات مذاق تک رہتی، تب بھی ٹھیک تھا، لوگ تو پوری سنجیدگی سے بھی یہی سوچتے اور کہتے تھے۔ مجھے وہ دن نہیں بھولتا، جب اسکول کی سالانہ تقریب میں بچّے ڈراما کر رہے تھے، تو کیسے میری کلاس کی دو لڑکیوں نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا مَیں ڈرامے میں چڑیل کا کردارادا کر لوں گی۔
اُن کو جواب کیا دینا تھا، اُن کی سنجیدگی دیکھ کر میرے دل پر جیسے چُھریاں سی چل گئیں۔ آنکھوں میں آنسو لیے میڈم سے شکایت کی، تو وہ سمجھانے لگیں کہ تمھیں دل بڑا کرنا چاہیے اور یہ کہ یہ کردار ادا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
ماں، دوسری تمام ماؤں کی طرح بہت پیار کرتی تھی، لیکن میرے لیے محض چند خاص رنگوں ہی کے کپڑے لاتی کہ بقول اُس کے، شوخ اور تیز رنگوں میں، مَیں اور زیادہ سانولی لگتی تھی۔ سو، مَیں نے سارے تیز، کِھلتے رنگوں کو ساری زندگی اپنے اوپر بند ہی پایا۔ چھوٹی بہن البتہ ہر رنگ کے کپڑے پہنتی تھی اور ہر رنگ ہی اُس پر خُوب جچتا تھا۔ ماں کبھی کبھی اُسے کہتی۔ ’’یہ میری تتلی ہے تتلی…‘‘ اور میرے دل میں عُمر بھر یہ حسرت ہی رہی کہ اے کاش! مَیں بھی کبھی اپنے لیے یہ لفظ ’’تتلی‘‘ سنوں۔ اِن ساری باتوں، رویوں نے میرے مزاج پربہت منفی اثر ڈالا۔
میری ذات، شخصیت بالکل دب سی گئی تھی، خود اعتمادی کا تو ذکر ہی کیا۔ مَیں دوسرے لوگوں، خاص طور پر مہمانوں کا سامنا کرنے سے سخت ہچکچانے لگی تھی۔ لوگ میرے سامنے مذاق کرتے ہوئے سمجھتے تھے یہ بچّی ہے، اِس کو کیا سمجھ آتی ہو گی۔ لیکن، شاید اُن سب کو پتا ہی نہیں چلا، مَیں کب کی بڑی ہو چُکی تھی، شاید اُسی دن سے، جب سے مجھے لفظ ”کالی“ کے معنی سمجھ آئے تھے۔ میں ہمیشہ بڑی بے دلی سے تیار ہوتی تھی، نئے کپڑے پہنتے بھی سوچتی کہ مَیں نے بھلا کیا کسی رُوپ میں اچھا لگنا ہے۔
چُھٹی کا دن ہو، ہم نے کہیں جانا ہو، کسی نے ہمارے گھر آنا ہو، ماں کو میری ہی فکر لگ جاتی تھی کہ ’’منہ دھو لو، نہا لو۔‘‘ اور مجھے جلد ہی سمجھ آگئی کہ وہ ایسا یہ سوچ کر کہتی ہوگی کہ ایک تو رنگ کالا، اوپر سے نہائی دھوئی نہ ہوئی تو اور بدشکل لگوں گی۔ چھوٹی بہن کو البتہ کوئی نہانے دھونے کا نہیں کہتا تھا، وہ ہمیشہ اپنی ہی مرضی کرتی تھی۔
والد صاحب بہت شفیق تھے اور وہ زیادہ تر میری پڑھائی ہی پر زور دیتے تھے۔ ”بچّے! پڑھا کرو، دل لگا کے پڑھا کرو“۔ چھوٹی بہن کو اِس معاملے میں بھی چُھوٹ حاصل تھی، جس پر مَیں بہت حیران بھی ہوا کرتی، لیکن بڑی ہوئی تو سمجھ آئی کہ وہ سوچتے ہوں گے، اگر اِس کی تعلیم بھی اچھی نہ ہوئی، تو کون قبول کرے گا اِسے، یہ اپنے پیروں پر کیسے کھڑی ہوگی؟
اور پھر… جوانی نے آ دستک دی۔ میرے ساتھ کی لڑکیوں کے تو طور طریقے ہی بدل گئے تھے، خُوب سجنا سنورنا شروع کردیا تھا اُنہوں نے۔ لڑکوں کو دیکھتیں، تو ایک عجیب سی کُھسر پُھسر شروع ہو جاتی۔ اُن کی آنکھوں میں کاجل کے ساتھ ساتھ سپنے بھی سجنے لگے تھے۔ گویا سب منتظر تھیں کہ کب کوئی شہزادہ آئے اور اُنہیں بیاہ لے جائے۔ اور ایک مَیں تھی، آرزو ہی رہی، کبھی کوئی لڑکا میری طرف بھی آنکھ بھر کر دیکھے کہ اگر کبھی غلطی سے کسی کی نظر پڑ بھی گئی تو نہ صرف فوراً ہٹا لی گئی، بلکہ دوبارہ کبھی لوٹ کر بھی نہیں آئی۔ ویسے مَیں سچ کہوں، تو مَیں جلد ہی اِس قدر حقیقت پسند ہو گئی تھی کہ اِس حوالےسے سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ پھر نہ کسی لڑکے کو دیکھ کر کسی خواہش نے انگڑائی لی، نہ آنکھوں میں کوئی سپنے سجے۔ مَیں جان گئی تھی کہ یہ سب کچھ میرے لیے ہے ہی نہیں۔
اور ہاں، ایک بات کا تو مَیں ذکر ہی بھول گئی۔ مجھے شاید اپنی کالی رنگت کا اِس قدر شدید احساس نہ ہوتا، اگر ہر وقت اخباروں، رسالوں، اور ٹی وی وغیرہ میں رنگت گوری کرنے والی کریموں کے اشتہارات نہ دیکھتی۔ دراصل اِن ہی ذرائع سے یہ احساس مجھ جیسی بے شمار لڑکیوں میں بچپن ہی سے راسخ کر دیا جاتا ہے کہ کالا رنگ ایک ایسی بُری بلا ہے، جس سے جس قدرجلد ممکن ہو، اور چاہے کتنے ہی جتن کیوں نہ کرنا پڑیں، بہرکیف چھٹکارا پانا لازم ہے۔
کون کون سی اداکارہ نہیں بتانے آئی، گورے رنگ کے فوائد۔ کریمز بنانے، بیچنے والے، اشتہارات بنانے، دِکھانے، اُن میں کام کرنے والے، سب اپنی اپنی کمائی کرلیں، اُنہیں اِس سے کیا غرض کہ یہ سارا گورکھ دھندا ہماری رُوحوں تک میں کیسے کیسے گھاؤ، شگاف ڈالتا ہے۔ اور یا تو یہ کریمز کچھ کام بھی کرتی ہوں۔ مَیں نے تو چُھپ چُھپ کر کیا کیا کچھ نہ آزما ڈالا کہ کسی طور کالا رنگ، گورا ہو جائے، مگر سب بے سود۔
مَیں کبھی کبھی سوچتی، اتنے بڑے بڑے دانش وَر لکھتے، بولتے، جابجا لیکچرز دیتے ہیں، اور پھر یہ بڑے بڑے قانون دان، سیاست دان، این جی اوز والی بیگمات، کیا کسی کو کبھی یہ خیال نہیں آتاکہ ایسے اشتہارات پر تو مکمل پابندی ہونی چاہیے کہ جن کے نتیجے میں محض ایک خاص رنگ ہی قابلِ قبول قرار پائے، اور ہزاروں لاکھوں لڑکیاں احساس کم تری کا شکار ہو کے زندہ در گور ہو جائیں، بے موت ہی ماری جائیں۔ اور ایسا بھی تو کوئی ادارہ ہو گا ناں، جو میڈیا کی سرگرمیوں پر نظر رکھتا ہو گا۔ وہ کیوں نہیں روکتا، ان جھوٹے دعووں پر مبنی، دل دُکھانے والے اشتہارات کو؟ انہی دنوں کچھ دیسی کریموں کا بھی بڑاچرچا ہوا۔
ماں میرے لیے بھی کہیں سے لے آئی اور پھربڑی یاد سے مجھے لگواتی۔ یہ سلسلہ کئی مہینےچلتا رہا۔ کون سا کوئی پوچھنے والا تھا۔ اُن کریموں میں نہ جانے کون کون سے کیمیکلز شامل تھے۔ رنگ کیا گورا ہونا تھا، اُلٹا میری جِلد ہی ادھڑنے لگی۔ مجھے خارش کا عارضہ لاحق ہوگیا۔ اور اِس سے پہلے کہ مرض مزید بڑھ جاتا، مَیں نے ماں کو بتائے بغیر ہی اُن کا استعمال ترک کردیا۔
ساری زندگی تنہائی، میری سب سے اچھی ساتھی رہی۔ اُس کے ساتھ مَیں نے کون کون سے دُکھ سُکھ نہیں بانٹے۔ اَن گنت، بے بہا آنسو بہائے۔ بلاشبہ، وہ ہر دَور میں میری بہترین سہیلی ثابت ہوئی۔ کسی سیانے، کسی ماہرِنفسیات سے پوچھیں، وہ یہی کہے گا، منفی سوچ ترک کر دیں، کہیں مصروف ہو جائیں، کوئی ملازمت کر لیں، زمانے کو اپنا آپ ثابت کر کے دکھائیں۔ ارے، ان صاحبان کو کوئی بتائے، مَیں یہ سب بھی کر کے دیکھ چُکی۔
ہم جیسیوں کو ملازمت دیتا کون ہے۔ مَیں عمدہ تعلیمی کیرئیر کی حامل تھی، بہت جگہ انٹرویو دینے گئی، میرٹ پر بھرتی ہو سکتی تھی، لیکن مجھے تو دیکھتے ہی انٹرویو لینے والوں پر جیسے بجلی سی گرجاتی تھی۔ دو چار سوالوں ہی میں فارغ کرنے کا چارہ شروع کر دیتے۔ گویا ایک سیدھا سادہ سا اصول کارفرما تھا کہ جو جس قدر خوش شکل تھی، اُس کے لیے نوکری ملنے کے امکانات اُسی قدر زیادہ تھے۔ یوں مجھ پرملازمت کا دروازہ سدا بند ہی رہا۔
اور… پھر وہی ہوا، جس کا ڈر تھا۔ میرا رشتہ ڈھونڈنے کے دن آ گئے اور یہ ڈھونڈ بہت لمبی، بہت مشکل ہی ہو گئی۔ اول تو کوئی آتا ہی نہیں تھا اور اگر کوئی بھولا بھٹکا آبھی جاتا تھا، تو پھر لوٹ کے نہ آتا تھا۔ دن، مہینوں میں بدلنے لگے اور مہینے سالوں کا رُوپ دھار گئے۔ میری شخصیت پر چھائی پژمردگی مزید گہری ہونے لگی۔
سارے گھر نے گویا سنجیدگی کی چادر ہی اوڑھ لی تھی۔ میری وجہ سے چھوٹی بہن کے لیے بھی رشتے نہ دیکھے جاتے تھے کہ اگر اُس کی شادی ہو گئی، تو پھر میری شادی کی تو رہی سہی اُمید بھی جاتی رہے گی۔ میرے لیے ایک اپنی پریشانی ہی کیا کم تھی کہ چھوٹی بہن کی فکر نے بھی آ گھیرا۔ لیکن، پھر ایک دن میری بھی ہاں ہو ہی گئی۔ شاید صحیح کہتے ہیں، جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔ نوید سات بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔
والد صاحب کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا، تو چھوٹی سی عُمر ہی میں بھاری ذمّے داریوں کا بوجھ آن پڑا۔ ایک ایک کر کے سب کو پڑھاتے لکھاتے اور پھر اُن کے بیاہ شادی کرتے اُن کی اپنی عُمر تو تقریباً نکل ہی گئی تھی۔ کسی بینک میں کیشئیر تھے۔ چالیس کے پیٹے میں ہوں گے، کم بالوں اور چشمے کے ساتھ پروفیسر لگتے تھے۔ بہرحال، میرا خیال رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ اور یوں زندگی ایک نئی ڈگر پر چل نکلی۔
شادی کو اب تقریباً ڈیڑھ سال ہونے کو ہے۔ اپنی تو روتے دھوتے، جیسے تیسے گزر ہی گئی، یہ جو آج مَیں آپ سے مخاطب ہوں، اور جو میرے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے ہیں، آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک سیلِ رواں سا بہہ نکلا ہے، تو وجہ یہ ہے کہ مَیں اِس وقت اسپتال کے ایک بستر پر موجود ہوں۔ کل اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک بیٹی سے نوازا ہے اور یہ جو ایک ننّھی سی جان میرے پہلو میں لیٹی ہوئی ہے، اِسے دیکھ کے میرے زندگی بھر کے زخم پھر سے ہرے ہوگئے ہیں۔ آہ!! میری بیٹی ہو بہو میرا پَرتو، پرچھائیں ہے۔